’میرے پیارے، میں ترقی کے خلاف نہیں ہوں میں نے اس عمر بھر کے سفر سے یہی سیکھا ہے کہ انسان کی خواہشات کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ ہر منزل پر پہنچ کر انسان یہ سوچتا ہے کہ یہ تو وہ منزل ہی نہیں کہ جس کی اسے تلاش تھی۔ یہ تو بس راستے ہی کا ایک حصہ تھا سو سفر پھر سے شروع ہوجاتا ہے۔ کوئی منزل، منزل نہیں رہتی۔ خوش نصیب لوگ ہی حال پر خوش رہتے ہیں۔‘
’ڈیڈی آپ سے کیوں نہیں ملتے‘، پوتے نے پوچھا
’آہ، مجھے نہیں معلوم اور مجھے اس پر حیرت بھی نہیں کیونکہ اس دیس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے تو حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ تم میرے پوتے اتنے اچھے ہو کہ ہر اتوار یہاں آتے ہو، میری تنہائی کچھ تو کم ہوتی ہے۔‘
’یہاں اس گھر میں، مَیں ان خوش نصیب لوگوں میں ہوں کہ جن سے ان کا کوئی عزیز ملنے آتا ہے، ورنہ یہاں کچھ لوگوں سے تو برسوں سے کوئی ملنے نہیں آیا۔ تم کھڑکی سے باہر مسٹر فرگوسن کو دیکھ رہے ہو، یہ محکمہ ڈاک میں بڑے آفیسر تھے اب ریٹائرمنٹ کے بعد پچھلے 5 سال سے وہ اس اولڈ ایج ہاؤس میں مقیم ہیں۔ ‘
’دادا وہ تو بڑے آدمی تھے ان سے تو بہت لوگ ملنے آتے ہوں گے؟‘ پوتے نے پوچھا
’میرے پوتے، تم ابھی عمر کے اس حصے میں ہو اور جس انداز سے لوگوں کو اور اس دنیا کو دیکھتے ہو اس میں تجربے کی کمی ہے۔ تم ابھی جسے حقیقت سمجھ رہے ہو وہ حقیقت کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ کافی عرصے سے مسٹر فرگوسن سے کوئی ملنے نہیں آیا‘
’میرے پوتے، تنہائی سب کے لیے اذیت ناک ہے لیکن ایک باتونی اور زندہ دل آدمی کے لیے تنہائی موت ہے، یہاں موجود تمام لوگوں نے مسٹر فرگوسن کی زندگی کے تمام اہم اور غیر اہم قصے کئی کئی بار سن لیے ہیں سو جب انہوں نے انسانوں کی غیر دلچسپی کو محسوس کیا تو پودوں اور پھولوں سے دل لگالیا۔‘
’دادا پودے تو سب کو پسند ہوتے ہیں‘
’ہاں لیکن مسٹر فرگوسن کی بات مختلف ہے۔ ٹھہرو میں سمجھاتا ہوں۔‘
’مسٹر فرگوسن‘
’مسٹر فرگوسن‘ دادا نے چلاکر پکارا۔
مسٹر فرگوسن جو پودوں سے ناجانے کیا بات کررہے تھے چونک کر کھڑکی کی جانب دیکھنے لگے۔
’اوہ ویلیم، میرے دوست کیسے ہو؟‘
’میں ٹھیک ہوں میرے دوست، آپ کے پودوں کا کیا حال ہے؟ مسٹر تھامس بتا رہے تھے کہ آپ کے پودے کچھ بیمار ہیں۔ ایسا کیا ہوگیا انہیں میرے پیارے دوست‘
مسٹر فرگوسن یکدم پریشان کن حد تک سنجیدہ ہوگئے۔
’ہاں ویلیم کچھ پودے واقعی کل سے مرجھائے مرجھائے لگ رہے ہیں۔ میں جو بات بھی کرتا ہوں بس چپ کھڑے ہوکر سنتے ہیں، پہلے ایسا نہیں تھا۔ پہلے پہل تو وہ میری باتیں سن کر جھومتے بھی تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ لیکن ویلیم میرے دوست میں جانتا ہوں پودے انسان نہیں ہوتے یہ بلاوجہ ناراض نہیں ہوتے، سو ان کی کوئی ضرور مجبوری ہوگی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بارش کی جدائی میں اداس ہیں، جونہی موسم بدلے گا یہ پہلے کی طرح ہوجائیں گے۔ خوش ہوں گے تو میری باتیں سن کر جھومیں گے۔ مسٹر ویلیم تم بس بارش کے لیے دعا کرو‘
’مسٹر ویلیم میرے دوست، تم دعا کرو گے نا‘؟
’ہاں ہاں کیوں نہیں میرے دوست میں ضرور بارش کے لیے دعا کروں گا کہ جلد بارش ہو اور تمہارے پودے پھر تم سے باتیں کرنے لگیں۔‘
’شکریہ میرے دوست‘ مسٹر فرگوسن نے کہا۔
’دادا کیا مسٹر فرگوسن پاگل ہیں؟‘ پوتا جو حیرت سے مسٹر فرگوسن کی باتیں سن رہا تھا، اچانک بول پڑا۔
’نہیں میرے پوتے ہرگز نہیں وہ بہت زندہ دل اور باتونی شخص ہیں وہ تنہا نہیں رہ سکتے۔ ان کے پاس بہت سے قصے ہیں ساری عمر کے قصے سو کسی نا کسی کو تو سنانے ہیں چاہے وہ پودے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ مسٹر فرگوسن اکیلے کی کہانی نہیں ہے میرے پوتے یہاں موجود ہر شخص ایک کندھا ڈھونڈھ رہا ہے کہ کوئی ایسا ہو جو ان کے دکھ درد بانٹ نہ بھی سکے تو کم از کم سن تو لے۔ تمہاری وجہ سے میرے پوتے میں خوش نصیب ہوں کہ میں ایسا نہیں ہوں۔‘
ایک ہاتھ میں چھڑی اور ایک ہاتھ میں اخبار تھامے مسٹر جانسن کمرے میں داخل ہوئے۔
’مسٹر ویلیم کیا آج سیر کو نہیں جانا؟ اوہ آج تو اتوار ہے اور تمہارا پوتا آیا ہوا ہے سو شاید تم نہیں آؤ گے‘
’کیسے ہو نوجوان؟‘ مسٹر جانسن نوجوان کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کچھ سوچنے لگے، اور پھر کہا۔
’میں کافی عرصے سے اپنے گھر والوں سے نہیں ملا لیکن میرا خیال ہے کہ میرا پوتا تمہاری ہی عمر کا ہوگا، کیوں مسٹر ویلیم میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘ جانسن نے مسٹر ویلیم سے استفسار کیا۔
’جی مسٹر جانسن آپ کا پوتا اتنی ہی عمر کا ہوگا‘
’لیکن مسٹر ویلیم ہوسکتا ہے وہ 2 ہوں، یا شاید ایک۔ اوہ ہو مجھے واقعی ان سے اور میرے پوتوں کو مجھ سے ضرور ملنا چاہیے۔ اس بار میرا بیٹا اینڈی آئے گا تو میں اس سے کہوں گا کہ وہ اگلی بار میرے پوتوں کو بھی ساتھ لائے، کیوں مسٹر ویلیم میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘
’جی بالکل آپ کو اینڈی سے ضرور کہنا چاہیے‘