2018ء کے انتخابات سے پہلے صوبے کی شہری آبادی کی جانب سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے صرف علیم خان کا نام ہی ایک مناسب امیدوار کے طور پر سامنے ابھر کر آیا، ظاہر ہے ایسا قانون سے ہری جھنڈی ملنے کی شرط کے ساتھ ہی ہوا ہوگا۔
ان کی امیدواری کو اس وقت زیادہ تقویت پہنچی جب وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے 2 مضبوط نام، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کسی نہ کسی وجوہات کی بنا پر عہدے کی ریس سے باہر ہوگئے۔
عثمان بزدار کے پاس اپنے رہنما کے مکمل اعتماد حاصل ہونے کے اپنے الگ دعوے ہیں۔ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے سلیکشن حادثاتی تو ہوسکتی ہے لیکن ان کی ریزیومے میں وزیرِاعظم کے ایسے متعدد بیانات شامل ہیں جن میں انہوں نے عثمان بزدار کو پنجاب کے لوگوں کے لیے ایک بہترین انتخاب قرار دیا۔
عثمان بزدار کو بااختیار عام آدمی کے طور پر پیش کیا گیا جو اپنے معاملات چلانے میں بااختیار ہے اور یوں ان کے چند مبیّنہ شرمندگی کا باعث بننے والے طور طریقوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی، جن کی وجہ سے انہیں پہلے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
وہ ابھی تک صوبے کے بہت زیادہ جوشیلے چیف ایگزیکیٹو بھلے نہ ہوں، مگر یہ بات پنجاب کے کئی لوگوں کے لیے بنیادی طور پر سکھ کے سانس جیسی ہے جس کے لیے وہ تند و تیز شہباز شریف حکومت کے طویل برسوں بعد بے تاب تھے۔
یہاں اس معاملے کا ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا عثمان بزدار یہ پروفائل رکھتے بھی ہیں یا نہیں جسے اپنی چوائسز پر ثابت قدم رہنے کے حوالے سے معروف رہنما کے لیے نظر انداز کرنا مشکل ہوجائے، کیا ہمیں مستقبل قریب میں وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے تھوڑا مقابلہ دیکھنے کو ملنے والا ہے؟
دسیتاب شواہد کا جائزہ لیا جائے تو عثمان بزدار کے پاس اپنا عہدہ محفوظ تصور کرنے کی ایک اہم وجہ ہے، چونکہ وہ عہدے پر فائز ہیں اس لیے ان کا کیس بھی مضبوط ہے۔ جس طرح ایک مشہور کہاوت ہے کہ جس چیز پر آپ کا قبضہ ہو وہ نصف ملکیت آپ کی ہوتی ہے۔
فرض کریں کہ اگر علیم خان کی جانب سے وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے عثمان بردار کو چیلنج کیا جاتا ہے تو اس طرح ایک اور بات بھی عثمان بزدار کے حق میں جائے گی۔ علیم خان کی پنجاب میں بطور صوبائی وزیر گزشتہ کارکردگی دیکھیں تو یہ اتنی کوئی غیر معمولی نہیں کہ انہیں پورے صوبے کا اختیار دینا لازمی محسوس ہونے لگے۔
علیم خان نے مستقل طور پر سرگرم ہوکر کام نہیں کیا۔ وہ ایک دو بار ہی سرگرم نظر آئے جبکہ کسی بھی اہم مرحلے کو خوش اسلوبی کے ساتھ سنبھال نہیں پائے اور یہی بات انہیں پارٹی میں شامل دیگر افراد سے الگ بناتی ہے۔