ہندوستانی پاکستان پالیسی کو مضبوط قیادت کے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ممکن ہوا تو وہ امن کی راہ پر چلیں گے، جس طرح واجپائی کے ساتھ چلے یا پھر اگر ضرورت پڑی تو جنگ کی راہ پر چلیں گے، اس کا دار و مدار باعزم اور فیصلہ کن قیادت پر ہے۔ کیا دوبارہ منتخب ہونے والے مودی پاکستان پر اپنی رائے بدلیں گے؟ اس سب کا انحصار نارملائزیشن سے اجنبیوں اور پاکستان کے درمیان سمجھوتے، اور تناؤ سے مقامی سیاست، کشمیر اور ہندوستان کے علاقائی اور زمینی و سیاسی مفادات کو حاصل ہونے والے فوائد پر ہوگا۔
پاکستان کے ایم ایف این اور ٹرانزٹ تجارت پر مؤقف جبکہ پائپ لائن منصوبوں اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت میں رکاوٹ بننے والی افغانستان کی صورتحال کو مدِنظر رکھیں تو ہندوستان کے لیے کسی قسم کی معاشی ترغیب تو نظر نہیں آئے گی۔ تاہم افغان امن عمل میں پیجھے رہ جانے کے حوالے سے خدشات کو یہاں اہم گردانا جاسکتا ہے۔
اب تک کے پاک بھارت تعلقات میں پاکستان کا ردِعمل ہوسکتا ہے اچھا رہا ہو لیکن اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کی پاکستان پالیسی نے تو ہندوستان کے قومی مقاصد میں مدد فراہم کی لیکن کیا پاکستان کی ہندوستان پالیسی پاکستان کے لیے یہ کام انجام دے رہی ہے یا نہیں؟
یہ مضمون 14 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔