بلاشبہ، مودی کے شروع کردہ اس بحران کے بعد جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے مقصد کو آگے بڑھانے کا ایک موقع حاصل ہوا ہے۔
مودی کے غلط اندزے خطے کو جنگ کی نہج تک لے گئے جو کہ ایک زبردست تباہی اور بربادی کے ساتھ ختم ہوتی۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کے بجائے وہ اس بحران کو جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کی نئی بنیادیں ڈالنے کے لیے استعمال کریں۔
اس قسم کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل کام نہایت اہمیت کے حامل ہیں:
- بھارت کی جانب سے کشمیر میں سویلین آبادی کے خلاف فوجی کارروائی یا طاقتکا استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی۔
- پاک بھارت ورکنگ گروپ کی بحالی تاکہ خطے کے اندر دہشتگردی کے تمام پہلوؤں پر توجہ دی جاسکے۔
- اضافی سی بی ایمز Confidence-building measures پر عمل تاکہ کسی ممکنہپاک بھارت تنازع کو ٹالا جاسکے۔
- پاکستان اور بھارت کے درمیان ’جامع‘ مذاکرات کی بحالی۔
- روایتی اور ایٹمی اسلحہ کنٹرول کے معاملے پر دوطرفہ مذاکرات کی شروعات۔
- (سرکریک، سیاچن) جیسے مسائل جو بہت زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ان کا جلداز جلد حل۔
- تجارت کے فروغ اور بین الاقوامی اور ربط سازی کے منصوبوں (جن میں دیگردلچسپی رکھنے والے ملکوں کی شمولیت بھی ممکن ہو) پر بات چیت۔
اس قسم کے امن منصوبے پر عمل کی امیدیں ہندوستان میں مودی اور بی جے پی حکومت کے ہوتے ہوئے تو زیادہ روشن نظر نہیں آتیں۔ تاہم امید ہے کہ پاکستان کے ہاتھوں ہونے والی حالیہ شکست، جو کہ بے وقوف بنائے گئے بھارتی عوام کو بھی صاف نظر آتی ہے، اس کے ساتھ اپنے بلند و بالا اقتصادی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی سے ایک اور مثبت نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، یعنی عنقریب ہندوستانی انتخابات میں مودی اور بی جے کی ناکامی۔
یہ مضمون 3 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔