الماس پروین: مردانہ معاشرے میں اپنا مقام بنانے والی ایک کسان
الماس پروین بھلے ہی آپ کو دبلی پتلی سی نظر آئے لیکن وہ اپنے کندھوں پر بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔
وہ خود ایک کسان ہے اور دیگر کسانوں کو ٹریننگ دیتی ہے، ایک ایسا گاؤں جسے کسی نام سے نہیں بلکہ نمبر، چک نمبر 224 ای بی، سے پکارا جاتا ہے، اس میں دیگر کسانوں کو تربیت دینا ایک بڑی ذمہ داری سے کم نہیں۔ اس کا فارم صوبہ پنجاب کے تاریخی شہر ملتان سے 100 کلومیٹر دور ضلع وہاڑی میں واقع ہے۔
پروین کئی پہلوؤں سے رواں سال کے عالمی یوم نسواں کے نعرے ‘مساوی سوچو، معقول بنیادیں ڈالو اور تبدیلی کے لیے جدت لاؤ‘ پر پورا اترتی ہیں۔ نعرے کا خلاصہ یہ ہے کہ صنفی برابری حاصل کرنے کی جدوجہد میں خواتین اور لڑکیوں کی جانب سے لڑکیوں اور خواتین کے لیے متعارف کردہ جدت کو شامل کیا جائے۔
مخصوص صنفی کرداروں پر سوال
میں نے اس کے منہ سے پہلی بات یہ سنی کہ، ’کپاس چننے کا کام ہمیشہ ایک عورت کو ہی کیوں کرنا پڑتا ہے؟‘
اس سوال کے اندر پروین نے درحقیقت روایتی صنفی کرداروں پر سوال اٹھایا تھا۔ اب جبکہ پروین خوش ہیں کہ وہ ایک ایسا کام بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ کر رہی ہیں جو کہ حسبِ روایت مرد ہی انجام دیتے ہیں، اس لیے اس کے سوال میں مزید گہرائی آجاتی ہے کہ آخر کیوں مرد وہ کام نہیں کرسکتے جسے حسبِ روایت خواتین ہی کرتی آئی ہیں۔
برسا برس سے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ کھیتوں میں اگنے والی گیند نما نرم ملائم، روئیں دار کپاس کو صرف خواتین کے نفیس اور نازک ہاتھوں سے ہی چنا جاسکتا ہے۔ پروین اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں اور کہتی ہیں کہ، ’یہ تو کام نہ کرنے کا محض ایک بہانہ ہے۔‘
وہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بتاتی ہیں کہ، ’بلاشبہ یہ پیٹھ توڑدینے والا کام ہے جسے انجام دینے کے لیے عورت کی زبردست قوت خرچ ہوتی ہے۔ گاؤں کی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ گھنٹے کام کرتی ہیں۔‘