نئے سیاروں کی تلاش اپنی جگہ، لیکن کیا کبھی انسان وہاں جا سکے گا؟
سائنسدان اور ماہرین فلکیات ایک طویل عرصے سے ہمارے نظام شمسی سے باہر ایسے سیاروں کی تلاش میں ہیں جہاں زندگی کے لیے لازمی عناصر اور موافق ماحول موجود ہو، مگر اس تلاش میں سب سے زیادہ اہمیت اس ستارے کو حاصل ہوتی ہے جس کے گرد یہ گردش کرتے ہیں، لیکن سیاروں کی تلاش و جستجو کا یہ سفر اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔
کیونکہ ہمارے نظام شمسی میں تو صرف ایک ستارہ سورج ہے مگر جب سائنسدان اس سے باہر تحقیق کے لیے قدم بڑھاتے ہیں تو محض ہماری کہکشاں" ملکی وے " میں ہی ایسے اربوں ستارے موجود ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ماہرین فلکیات نے ستاروں کی درجہ بندی کرتے ہوئے انھیں مختلف درجات میں تقسیم کردیا، تلاش کے سفر میں ہونے والی ہر نئی پیش رفت سے نہ صرف ان درجات میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ ماہرین کو ستاروں کے بارے میں نئی اور حیرت انگیز معلومات بھی حاصل ہو رہی ہیں۔
حال ہی میں ناسا کی ایک ٹیم نے ستاروں کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے جو ہمارے نظام شمسی کے مرکزی ستارے " سورج" سے زیادہ مدہم ہے مگر ہماری کہکشاں میں موجود دیگر اربوں ستاروں سے زیادہ روشن ہے، ستاروں کی اس نئی کلاس کو سائنسدانوں نے" کے اسٹارز" کا نام دیا ہے اور وہ پر امید ہیں کہ ان پر تحقیق سے کائنات میں زندگی کی تلاش میں اہم پیش رفت ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: سورج کی حرارت روکنے کا منصوبہ کیا ہے اور اسے کیسے کامیاب بنایا جائے؟
اس کی سب سے بڑی وجہ ماہرین نے یہ بیان کی ہے کہ "کے اسٹارز " 17 سے 70 ارب سال پرانے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ہمارا سورج محض 10 ارب سال پرانا ہے، اس کے علاوہ ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ ان ستاروں کے وجود میں آنے کے بعد کافی عرصے تک ان کی ایکٹیویٹی کی شرح بے حد سست تھی، ماہرین کے مطابق ان ستاروں کی ایکٹیویٹی کے بر عکس کائنات میں موجود دیگر مدہم ستارروں میں اسی طرح کی ایکٹیویٹی کی رفتار نسبتا تیز ہے اور ایسے اسٹارز کو "ایم اسٹارز" یا "ریڈ ڈوراف " (سرخ بونےستارے) بھی کہا جاتا ہے۔