اب زرعی قرضوں کا کیا معاملہ ہے؟ اس حوالے سے اس رپورٹ نے پہلے اہم فصلوں اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار کے انتظام سے وابستہ خدماتی شعبے کی پیداوار میں شدید کمی کا احاطہ کیا جسے دیگر وجوہات کے ساتھ پانی کی قلت اور ڈی اے پی کھادوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے جوڑا گیا ہے۔
’مالی سال 2018ء کی دوسری سہہ ماہی کے دوران زرعی قرضے کی تقسیم کی شرح 39.4 فیصد تھی جو مالی سال 2019ء کی دوسری سہہ ماہی کے دوران گھٹ کر 14.2 فیصد تک آگئی۔‘ مطلب یہ کہ مجموعی اعداد میں بھلے ہی اضافہ نظر آتا ہو مگر درحقیقت کمی کا رجحان موجود ہے۔
اور مجموعی طور پر اعداد میں اضافہ کیوں ہوا؟ تو اس کی وجہ ہے کھاد کی قیمت میں 16.7 فیصد اضافہ، پھر اس کے علاوہ ڈی اے پی کھاد کی قیمتوں میں زرِ مبادلہ کی شرح میں کمی کے سبب مہنگی بین الاقوامی قیمتوں کے باعث اضافہ۔
تو جناب زراعت میں بھی صنعت جیسا ہی رجحان پایا جاتا ہے، زمین پر کھڑی فصل تباہ ہوجائے، اہم فصل کی پیداوار میں کمی واقع ہوجائے، زرعی لاگت کی قیمت میں اضافہ ہوجائے اور پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوجائے تو کسان اس قسم کی صورتحال میں خود کو بحران سے بچانے کے لیے قرضے لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ صنعتی اور زرعی شعبے میں قرضوں کا اضافہ اقتصادی بحالی سے زیادہ لوگوں کی جانب سے خود کو زندہ رکھنے کی بڑھتی ہوئی شدید خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
اس سے پہلے، حکومت پر اس لیے حملہ کیا جا رہا تھا کیونکہ اعداد و شمار بیرونی قرضے میں تیزی سے ہوتے اضافے کو ظاہر کر رہے تھے۔ ان کی جانب سے اپنے دفاع میں یہ درست کہا گیا کہ اس قدر اضافے کا سبب زرِ مبادلے کی کمی ہے نہ کہ نئے قرضے، وہ صحیح تھے۔ جب تک دونوں اعداد و شمار کے نتیجوں کا الگ الگ اور سیاق و سباق کے بغیر جائزہ نہیں لیا گیا تب تک اصل کہانی پتہ نہیں چلی۔
مگر اس کے بعد وزیرِ خزانہ پیچھے مڑے اور ٹھیک یہی کام کیا اور ان 2 اعداد وشمار کے نتیجوں کی بنیاد پر بحالی کا شور مچانا شروع کردیا۔ اب جب صنعت اور زراعت سے متعلق ان اعداد و شمار کے نتیجوں کو ان کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا گیا تو ایک بالکل ہی مختلف کہانی نظر آئی جسے وزیرِ خزانہ نے گھومانے کی کوشش کی تھی۔
یہ مضمون 28 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔