لاہور کے ایچیسن کالج اور کراچی کے گرامر اسکول جیسے اسکولوں میں داخلہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ایک طالب علم کی خالی جگہ پر بھی ڈھیروں درخواستیں بھیجی جاتی ہیں اور محض 5 برس کے کمسن بچوں سے بھی امتحان لیا جاتا ہے کہ کون سا بچہ اسکول کے لیے موزوں ہے اور کون نہیں، البتہ اس قدر کمسن بچے سے کس علم کی توقع کی جاتی ہے یہ میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ مگر صرف یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ان کے والدین ’درست‘ قسم کے ہیں، انہیں انٹرویو کے لیے بھی طلب کیا جاتا ہے۔
ایک بار اسکول میں داخلہ ہوگیا تو بچے کی پوری زندگی کا نقشہ سا تیار ہوجاتا ہے کہ آگے جاکر وہ گریجویشن کسی امریکی یونیورسٹی سے کرے گا، اس کے بعد کسی اچھی، بلکہ ترجیحی طور پر کسی ملٹی نیشنل کارپوریشن یا پھر والد کی کمپنی میں ملازمت کی باری آئے گی، کسی ہم پلہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے یا والی سے شادی کی جائے گی اور پھر اپنے بچوں کا کسی اشرافیہ اسکول میں داخلہ یقینی بنانے کی جدوجہد کا مرحلہ شروع کیا جائے گا۔
مگر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بچے کی اس پروگرام شدہ زندگی کے سلسلے کے درمیان ایسے ذہین بچے جو منہ میں چاندی کا جمچ لیے پیدا نہیں ہوتے کہ جس پر امرا کے بچے اپنا ازلی حق سمجھتے ہیں، انہیں ایک طرف کردینے سے ہم بہت بڑا نقصان اٹھاتے ہیں۔ کنارے سے لگے یہ افراد انگریزی سے ہمارے لگاؤ کی وجہ سے بننے والی گہری دراڑوں میں پھنسے رہتے ہیں۔
یوں ہم نے نہ صرف خواتین اور اقلیتوں کو اہم جگہوں سے دُور رکھا ہوا ہے بلکہ انگریزی کو زیادہ سے زیادہ فوقیت دے کر باصلاحیت افراد کے مجموعے یا ٹیلنٹ پول کو محدود سے محدود تر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جہاں زیادہ تر بچے اردو یا انگریزی میں سے کسی ایک زبان پر مناسب حد تک عبور حاصل کیے بغیر اسکول سے فارغ ہوتے ہیں اور لامحالہ ہم اپنے ثقافتی ورثے کے ایک اہم حصے سے محروم ہوجاتے ہیں۔
یہ مضمون 30 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔