3 برس قبل میری ملاقات ایک سول سرونٹ سے ہوئی جو پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں میں کام کرچکا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ دونوں صوبوں میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’سائیں، پنجاب میں تو کام کرنا کافی مشکل ہے کیونکہ وہاں وزیراعلیٰ کے پرائیوٹ سیکریٹری روزانہ صبح 8 بجے تمام ڈی سیز کو ان کے لینڈ لائن نمبرز پر فون کیا کرتے تھے جبکہ سندھ کے اندر جب میں کام پر جاتا ہوں تو کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔‘
گورننس کی جانب یہ مختلف رویہ ہی پنجاب اور سندھ کے درمیان حائل خلیج کو واضح کردیتا ہے۔ وہ لوگ جو کراچی سے لاہور بذریعہ روڈ گئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح سندھ سے پنجاب میں داخل ہونے کے بعد اچانک سے سڑکوں کے معیار میں بہتری آجاتی ہے۔
یہاں یہ کہنا بالکل بھی مراد نہیں کہ پنجاب میں راتوں رات دودھ اور شہد کی ندیاں بہنے لگی ہیں۔ لیکن آپ کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک کم از کم وہاں جو تبدیلی کا رجحان تھا اس کے پیچھے حکام کا ہاتھ تھا۔ سندھ میں چونکہ حکمران پیسے بنانے میں بہت زیادہ مصروف ہیں اس لیے بہتری لانے کے لیے ان میں کچھ زیادہ خواہش نظر نہیں آتی۔
اس بات کو یاد رکھیں کہ لاہور کو مغلیہ دور کے بیش قیمتی ورثے، کلونیل عمارتوں اور باغوں کی صورت کراچی پر ہمیشہ سے فوقیت حاصل رہی۔ جبکہ کراچی اس کے برعکس ایک غیر اہم بندرگاہی شہر تھا جس کے پاس چند شاندار کلونیل عمارتوں کے علاوہ زیادہ کچھ نہیں تھا۔
تقسیم ہند کے بعد لاکھوں مہاجرین نے اس شہر کا رخ کیا اور اس شہر میں آباد ہوئے، اور پھر دیگر صوبوں سے روزگار کی تلاش میں آنے والے کثیر تعداد میں لوگوں کی آمد کے جاری سلسلے کی وجہ سے آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
محدود وسائل کی وجہ سے ظاہر ہے کہ یہ شہر آبادی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر رہا ہے۔ مگر اس بات کو لوٹ کھسوٹ کے گرم بازار کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
یہ مضمون 6 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔