آپ کو اپنی زندگی میں ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑا ہوگا جنہیں آم پسند نہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو کوئی لطیفہ سُن کر پوری سنجیدگی سے پوچھتے ہیں ’پھر کیا ہوا؟‘ اگر انہیں کوئی دوست بتائے کہ میں ہنی مون پر گیا تھا، تو یہ اس ہنی مون میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلا سوال داغیں گے کہ کیا ’بھابھی بھی ساتھ تھیں؟‘
یہ بس نصیحت اور ترغیب کے وقت شاعری سے لگاؤ کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں اور یہ مظاہرہ دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ ایک لگاو۔ مثلاً والدین کی فرمانبرداری پر اُکساتے ہوئے یہ کہیں گے ’وہ علامہ اقبال نے کہا ہے ناں اپنے ماں باپ کا تُو دل نہ دکھا دل نہ دکھا‘۔ اس معمولی سی اقلیت کو چھوڑ کر آم ہر ایک کا پسندیدہ پھل ہے، بس حکمرانوں کا یہ ہے کہ وہ آم کاٹ کر کھانا پسند کرتے ہیں چوس کر نہیں، چوسنے کے لیے ان کا انتخاب آم کی جگہ عام آدمی ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کو اکبرالہٰ آبادی نے آموں کا تحفہ بھیجا تو علامہ نے کہا:
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الہٰ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا
وہ زمانہ گزر گیا۔ اب تو جس کے ہاتھ پاؤں سلامت ہوں وہ بھی بمشکل الہٰ آباد سے لاہور پہنچ سکتا ہے۔ البتہ ’آلام‘ کی دو طرفہ آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
آم کی بہت سی قسمیں ہیں، مگر عام طور پر لوگ آم اور سیاستدانوں کو پہچان نہیں پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آم بدمزہ نکلتا ہے اور سیاستدان اقتدار کے مزے لے کر نکل جاتا ہے۔ آم کا معیار سونگھ کر جانچا جاسکتا ہے، لیکن سیاستدان کا کردار کم از کم دن کے وقت سونگھنے سے پتہ نہیں چلتا۔ آم پیٹی میں ہو یا پیٹی سے باہر پھلوں کا بادشاہ ہی رہتا ہے، لیکن سیاستدان کے بادشاہ ہونے کے لیے ’پیٹی‘ کا ساتھ لازمی ہے، وہ پیٹی بند بھائی بن کر ہی اقتدار حاصل کرسکتا ہے۔
ہمارے خیال میں ہم نے آم کے بارے میں تمام ضروری معلومات فراہم کردیں، آم آئیں اور مہنگائی کے باوجود ہاتھ آئیں تو باقی کی معلومات ان سے خود ہی حاصل کرلیجیے گا۔