مگر موجودہ فضول پلاسٹک کا کیا جائے؟ اس مسئلے کے بھی کئی حل تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ نائجیریا کے شہر یولا میں بڑی تعداد میں خواتین گھروں میں بیٹھ کر پلاسٹک کی تھیلیوں کی ری سائیکل کرکے فیشن کا سامان بناتی ہیں اور چند ملکوں میں ان سے فن پارے بھی بنائے جاتے ہیں۔
اس ماڈل کو ہمارے ہاں اپنانے میں زیادہ مشکل نہیں کیونکہ اس سے ہمیں اقتصادی پیداوار میں اضافہ کرکے مالی فائدہ حاصل ہوگا۔ ہاں اس کے علاوہ فضول پلاسٹک کو (پگھلا کر) سڑکوں کی تعمیر میں استعمال کرنے کا ہندوستانی جدید طریقہ بھی تو آپ کے سامنے موجود ہے۔
اب بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی طریقہ ہر طرح سے بہتر نہیں ہے، مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی جادوئی حل تو کہیں دستیاب نہیں۔
اس کا بہتر حل یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں اور انٹرپرینیور طبقے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے متعدد اقدامات کیے جائیں، بشرطیکہ اس مقصد کے لیے عزم بھی موجود ہو، کیونکہ ہم یہیں آکر مار کھا جاتے ہیں۔ انفرادی حیثیت میں کیا جانے والا کام چاہے کتنا ہی معنی خیز یا جدید ہو، مگر ریاست کے کردار کی برابری کبھی نہیں کرسکتا، لیکن ہم نے اب تک چند اجلاسوں، اعلانات اور زبانی کلامی خدمت کے سوائے اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کے لیے کسی قسم کا عزم نہیں دیکھا۔
جبکہ یہ کہنا بیکار ہے کہ یہ کام اسی صورت میں کارگر ثابت ہوگا جب سماجی رویے بدلیں گے، کیونکہ معاشرے میں کوئی بھی کام منظم انداز میں کروانے کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر اہم مسائل بھی اس ملک کو لاحق ہیں (اور امید ہے کہ ان سب کا حل بھی ڈھونڈا جائے گا) لیکن اس بات کا بہانہ بنا کر ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں چانا چاہیے خاص طور پر جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ جو پلاسٹک کی اوسط معیار کی تھیلی ہم نے آج خریدی اور پھینکی ہے وہ ہماری اولادوں کی اولادوں اور ان کی اولادوں کی اولادوں کی ہڈیاں گل سڑ جانے کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک یہاں وہاں بکھری ملیں گی۔
اس دنیا میں ہم اپنے پیچھے کئی چیزوں کی میراث چھوڑ جائیں گے بس خیال رہے کہ پلاسٹک کی تھیلی میں ان سے سب سے زیادہ پائیدار میراث ثابت نہ ہو۔
یہ مضمون 15 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔