دلہن بننے والی چھوٹی بچی اکثر و بیشتر ازدواجی ریپ کا نشانہ بنتی ہے۔ ابھی وہ تولیدی عوامل کو ٹھیک طور پر سمجھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی کہ اسے ان عوامل سے زبردستی گزارا جاتا ہے۔ اس سے پہلے وہ یہ سیکھ اور جان پائے کہ بطور ماں اس پر کون کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، وہ ایک مان بن جاتی ہے۔
بار بار بچے کی پیدائش ماؤں کی شرح اموات میں اضافے اور ایسے بچوں کی پیدائش کا باعث بنتی ہے جو اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ ان کا زندہ بچنا مشکل ہوجاتا ہے، جس کی مثال ہم تھر کی صورتحال سے حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ جہاں ایک طرف بچپن کی شادی خواتین کی زندگیوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے وہیں دوسری طرف نومولود بچوں کی شرح اموات میں اضافے اور ناپختہ بچوں کی پیدائش کا باعث بنتی ہے۔ یہ دونوں ایسے زبردست نقصان کا باعث بنتے ہیں جسے کوئی بھی ملک برداشت نہیں کرسکتا ہے۔
کئی ممالک خواتین اور بچوں کے معیار زندگی بہتر کرچکے ہیں اور خاندانوں کو لڑکیوں کی شادی کی عمر تک پرورش کرنے کے قابل بنا کر اپنی اقتصادی ترقی شرح میں بہتری لاچکے ہیں۔ اس کی سب سے قریبی مثال بنگلہ دیش ہے۔ ترکی، مصر، بنگلہ دیش، اور متحدہ عرب امارات سمیت متعدد مسلم ممالک نے لڑکیوں کے لیے کم سے کم شادی لائق عمر 18 برس مقرر کی ہوئی ہے۔ پاکستانی علماء ان ممالک میں مذہبی احکامات کی تشتریح کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کچھ عرصہ قبل سندھ نے لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر بڑھا کر 18 برس مقرر کی تھی، تو کیا صوبے پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے؟
آخری بات یہ کہ، لڑکیوں کے لیے شادی کی کم سے کم عمر مقرر کرنے کا عمل کوئی نئی ’سازش‘ نہیں ہے۔ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929ء آزادی کے 72 برسوں تک نافذالعمل رہتا آیا ہے۔ مسلم فیملی لاء آرڈینینس میں لڑکیوں کی شادی لائق عمر کی قانونی شرط 2 دہائیوں تک درج رہی، جس کے بعد جنرل ضیا نے اپنی مرضی سے اس کا خاتمہ کردیا۔
موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے اپنے حد سے زیادہ رجعت پسند بازو کی حمایت سے انکار کا فیصلہ روشنی کی ایک کرن سے کم نہیں ہے۔ حکمران جماعت کے پاس اس مسئلے پر کسی اتفاقِ رائے کو نظر انداز کرتے رہنے کا زیادہ وقت نہیں ہے۔ ہر ایک کی خواہش یہی ہوگی کہ وہ اپنے چند گمراہ اراکین کے اذہان کو غلط خیالات سے چھٹکارہ دلانے میں کامیاب ہوں گے۔
لیکن اگر وہ اس مسئلے پر یونہی گبھراہٹ کا شکار رہتے ہیں تو یوں اس تاثر کو مزید تقویت پہنچے گی کہ موجودہ حکومت نے جہل پسند عناصر کے لیے راہیں ہموار کرنے میں گزشتہ حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑنے لگی ہے، جو کہ ملک کی خواتین اور اقلیتی برادریوں کے افراد کے لیے ناقابلِ بیان دشواریوں اور صعوبتوں کا باعث بنے گا اور اس کے علاوہ خلافِ زمانہ کٹر پنے کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کی وجہ بنے گا۔
یہ مضمون 16 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔