کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس اہکاروں کی تحویل میں میں ہلاک ہونے والے شخص محمد بلال کے "متنازعہ" معاملے کا مقدمے ہفتے کے روز سچل پولیس اسٹیشن میں درج کرلیا گیا ہے۔
محمد بلال نامی شخص کی ہلاکت کی ایف آئی آر اس کے والد کی مدعیت میں رینجرز اہلکاروں کے خلاف درج ہوئی۔
یاد رہے کہ بلال کو رینجرز اہلکار اس کے گھر سے پانچ روز قبل پندرہ جولائی کو گرفتار کرکے لے گئے تھے، تاہم ڈان اخبار میں شائع ہوئی ایک رپورٹ میں حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ محمد بلال دو روز تک رینجرز کی تحویل میں رہے اور بعد انہیں سچل پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بلال کو زخمی حالت میں ان کے حوالے کیا گیا تھا اور وہ ہسپتال منتقلی کے دوران ہلاک ہوئے تھے، جبکہ رینجرز کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے بلال کو مکمل صحت مند حالت میں پولیس کی تحویل میں دیا تھا اور اس کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔
تاہم ڈاکٹروں نے بلال پر "الیکٹرک شاٹس" سمیت دیگر طریقوں سے تشدد کرنے کی تصدیق کی ہے۔
گرشتہ روز جمعے کو ڈی آئی جی پولیس ایسٹ کیپٹن طارق نوید نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایس پی ملیر ڈاکٹر محمد نجیب اور ایس پی انویسٹیگیشن عباس رضوی کو معاملے کی مکمل تفتیشن کرنے کا حکم دیا تھا۔
واضح رہے کہ بلال کی موت سے قبل منگل کو رینجرز ہلکاروں نے کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں ایک ٹیکسی پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں اُس کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا۔
ٹیکسی ڈرائیور پر اس وقت فائرنگ کی گئی تھی جب رینجرز کی جانب سے گاڑی کو روکنے کے اشارے پر ڈرائیور نے خلاف ورزی کرتے ہوئے گاڑی کو نہیں روکا تھا۔
ادھر کراچی کی ایک مقامی عدالت نے ٹیکسی ڈرائیور پر فائرنگ کے الزام میں رینجرز اہلکار کو 22 جولائی تک جسمانی ریمانڈ دے دیا ہے۔
کراچی میں رینجرز کا گشت بظاہر شہر میں ہونے والے پرتشدد واقعات کو روکنے کا ایک سلسلہ ہے لیکن انسانی حقوق کی جانب سے رینیجرز کی شہری علاقوں میں تعیناتی پر شکایت کی جاتی ہیں۔
2011ء میں رینجرز کو اس وقت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا جب کراچی کے ایک مقامی پارک میں ایک غیر مسلح نوجوان سرفراز شاہ پر رینجرز اہلکار کی جانب سے فائرنگ کی اور اس واقعہ ویڈیو ٹی وی پر نشر ہوگئی تھی۔
اس واقعہ کے بعد کراچی کی مقامی عدالت نے سرفراز قتل کیس میں فائرنگ کرنے والے رینجرز اہلکار کو سزائے موت اور اس کیس میں ملوث باقی پانچ اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
پاکستان میں یہ پہلی بار تھا کہ کسی بھی عدالت نے رینجرز کے اہلکار کو سزائے موت کا حکم دیا ہو۔