صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد سے تعلق رکھنے والے حسن عبداللہ کو جہاں تک یاد ہے کہ جنوبی پنجاب کے علاقے میں ان کی 400 ایکڑ زرعی اراضی کا 50 ایکڑ حصہ ہمیشہ پریشانی کا باعث رہا جہاں کچھ بھی کاشت نہیں ہوتا تھا۔
ان کی زرعی اراضی دریائے سندھ کے مشرقی حصے میں ضلع رحیم یارخان کے صحرائے چولستان میں واقع ہے جہاں نالوں کے ذریعے آبپاشی کی جاتی ہے۔
حسن عبداللہ کو یہ زمین اپنے والد کے انتقال کے بعد 2005 میں وراثت میں ملی تھی، اس سے پہلے وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ تھے۔
2015 میں کافی تحقیق کے بعد عبداللہ نے ڈرپ اریگیشن (آبپاشی) نظام کے استعمال سے بنجر زمین پر فصل کاشت کرنے کا خطرہ مول لیا، انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے ڈرپ اریگیشن پر 60 فیصد سبسڈی کا اعلان حوصلہ افزا تھا تاہم فلڈ اریگیشن کے باعث پانی کی شدید کمی کے شکار ملک کا 80 فیصد سے زائد پانی زراعت میں استعمال ہوجاتا ہے۔
آج حسن عبداللہ کی بنجر زمین دیکھنے کے قابل ہے جہاں صحرا میں پھلوں کے باغات موجود ہیں، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ڈرپ اریگیشن کے بغیر اس صحرا میں کچھ پیدا نہیں ہوسکتا تھا، انہوں نے کہا کہ کھاد ملے پانی کو ڈرِپرز کے ذریعے پائپس سے لے جایا جاتا ہے جوفی منٹ پانی کی مخصوص مقدار باغ میں موجود ہر پودے کی جڑوں کو براہ راست پہنچاتا ہے۔
حسن عبداللہ نے بتایا کہ چونکہ پانی مخصوص مقدار میں دیا جاتا ہے اس لیے نہ تو پانی پھیلتا ہے، نہ ضائع ہوتا اور نہ ہی بھاپ بن کر اڑتا ہے۔
پانی کے بچاؤ کی یہ تکنیک پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے پاکستانی کسانوں کے مستقبل کی بقا میں اہم کردار ادا کریں گی، پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی بہت کم ہے، زرعی شعبے میں استعمال کے لیے پانی انتہائی ناکافی ہے اور پیداوار کم ہے۔
صوبہ پنجاب کے کسان آبپاشی کے ذریعے زیادہ پانی والی فصلیں، جیسا کہ کپاس اور گندم کاشت کرتے ہیں اور ان کے چیلنجز موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ بڑھ جائیں گے۔
کسان پانی کی سپلائی کے لیے دریائے سندھ پر انحصار کرتے ہیں، جس کے پانی کا بہاؤ ہمالیہ کے گلئیشرز سے متعلق پیش گوئی پر انحصار کرتا ہے۔
ڈرپ اریگیشن کی طاقت
پنجاب حکومت کے شعبہ زراعت کے آن فارم واٹر مینجمنٹ (او ایف ڈبلیو ایم) ونگ کے ڈائریکٹر جنرل ملک محمد اکرم کے مطابق سطح پر آبپاشی کے بجائے ڈرپ اریگیشن کے استعمال سے کسان 95 فیصد پانی کو بچاسکتے ہیں اور فرٹیلائزر کے استعمال میں کمی کی جاسکتی ہے۔