Dawn News Television

اپ ڈیٹ 06 جون 2019 12:57am

سوڈان تنازع:دریائے نیل سے 40 لاشیں برآمد، ہلاکتوں کی تعداد 100 ہوگئی

سوڈان کے اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت خرطوم میں دریائے نیل سے 40 لاشیں نکالی گئیں جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کے مظاہرین پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 ہوگئی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق حالیہ ہلاکتیں جمہوریت کے حامی مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کے پرتشدد کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہوئیں۔

اپوزیشن سے منسلک ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دریائے نیل سے نکالی جانے والی لاشیں ہلاک ہونے والے ان 100 افراد میں شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مظاہروں سے خوفزدہ پیرا ملٹری گروپ شہریوں پر حملے کر رہا ہے۔

تاہم سوڈان کی حکمراں عبوری فوجی کونسل (ٹی ایم سی) نے واقعات کی تحقیقات کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

خرطوم کے رہائشیوں نے 'بی بی سی' کو بتایا کہ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے اہلکار سڑکوں پر گھوم رہے ہیں جس کے باعث وہ خوفزدہ ہیں، اس پیراملٹری یونٹ نے، جو ماضی میں جنجوید ملیشیا کے نام سے جانا جاتا تھا، 2003 میں مغربی سوڈان میں دارفور تنازع کے دوران شہرت حاصل کی تھی۔

نامعلوم ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ نسل کشی ہے — فوٹو: اے پی

سوڈانی ڈاکٹروں کی مرکزی کمیٹی نے فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ 'گزشتہ روز ہمارے 40 عظیم شہریوں کی لاشیں دریائے نیل سے نکالی گئیں۔'

گروپ کے ایک عہدیدار نے 'بی بی سی' کو بتایا کہ انہوں نے ان لاشوں کو ہسپتالوں میں دیکھا ہے جن کی وہ شناخت کر سکتے ہیں، جبکہ سیکیورٹی فورسز کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 ہوگئی ہے۔

چینل فور کی سوڈانی صحافی یسریٰ ایلبغیر نے سابق سیکیورٹی افسر کے حوالے سے کہا کہ دریائے نیل میں پھینکی جانے والی لاشوں میں سے چند پر تشدد یا انہیں گولی ماری گئی، جبکہ دیگر کو چھریوں کے وار سے قتل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سوڈان: مظاہرین کی تنظیم کا سویلین حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ

نامعلوم ذرائع کا کہنا تھا کہ 'یہ نسل کشی ہے۔'

گزشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ نے سوڈان کی موجودہ صورتحال پر سعودی عرب سے تشویش کا اظہار کیا تھا، جو سوڈان کے فوجی حکمرانوں کا اہم اتحادی ہے۔

اس کے بعد سعودی عرب نے سوڈان میں مختلف سیاسی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔

سوڈان میں ہو کیا رہا ہے؟

خیال رہے کہ 11 اپریل کو سوڈان کی فوج نے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث 30 سال سے برسر اقتدار صدر عمر البشیر کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا تھا اور اقتدار بھی سنبھال لیا تھا۔

وزیر دفاع نے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی حکمرانی کا اعلان کرتے ہوئے سول جمہوری تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو مشتعل ہونے سے روکنے کے لیے ایمرجنسی بھی نافذ کردی تھی۔

تاہم سوڈان کے وزیر دفاع جنرل عود ابن عوف نے 12 اپریل کو ملٹری کونسل کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا تاہم وہ اگلے ہی دن عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کے بعد 13 اپریل کو جنرل عبدالفتح برہان نے حلف اٹھایا۔

فوج کی جانب سے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے پر ہزاروں مظاہروں نے دارالحکومت خرطوم کے وسط کی طرف مارچ کیا تھا اور صدر کی برطرفی کی خوشیاں منائیں تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سوڈان: عوام نے فوجی حکومت کو بھی مسترد کردیا

عود محمد ابن اوف نے کہا تھا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بنائی جانے والی ملٹری کونسل آئندہ 2 سال تک حکومت کرے گی جس کے بعد ’ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں گے‘۔

انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ فوج نے آئین معطل کردیا، حکومت تحلیل کردی اور 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی بھی نافد کردی، تاہم صدر عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد فوجی نظام سنبھالنے پر بھی مظاہرین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے رہنماؤں نے صدر کی برطرفی کے بعد تشکیل دی گئی ملٹری کونسل کو بھی مسترد کردیا تھا۔

مظاہرین نے ملک میں جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے سول قیادت اور سوڈان میں جاری تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا جن کی وجہ سے ملک بدترین غربت کا شکار ہے۔

تاہم پیر کے روز سیکیورٹی فورسز نے ملٹری ہیڈکوارٹرز کے باہر جمع مظاہرین پر فائر کھول دیئے تھے، جس میں ابتدائی طور پر 30 افراد ہلاک ہوئے۔

Read Comments