وہ صنعت جسے ایس آر او 1125 کے ذریعے سیلز ٹیکس سے چھوٹ حاصل تھی اس پر یکم جولائی سے 17 فیصد کے سیلز ٹیکس کا اطلاق ہوگا۔ ٹیکس پلان پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے کسی جنگی پلان کو پڑھا جا رہا ہے، اب آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو اسے چائنہ شاپ بناتی ہے۔
یہ چائنہ شاپ اس لیے ہے کیونکہ ایک اہم حد تک محصولات وصولی کی کوشش لوگوں کے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے اتفاق سے مشروط ہوتی ہے، تھوڑا بہت ڈیم فنڈ کے معاملے کی طرح۔
ایمنسٹی اسکیم اس پوری مشق کی کلاسیکی مثال ہے جس نے اس پوری مشق کی ابتدا کی اور ابھی تک ردعمل کافی ٹھنڈا رہا ہے (تاہم ایسے معاملات میں عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ آخری دنوں میں لوگوں کی جانب سے بڑی تعداد میں رد عمل آتا ہے، تو چلیے دیکھتے ہیں۔) اگر لوگ آگے نہیں آتے تو حکومت کی جانب سے سختی سے پیش آنے کے پیغام کی قلعی کھل جائے گی۔
اسی طرح سے مالیاتی بل متعدد عوامل کو مجرمانہ حیثیت دیتا ہے تاہم آیا ایف بی آر (حساب برابر کرنے کے برعکس) محصولات کی پیداوار کے لیے ان اختیارات کو استعمال کرسکے گی یا نہیں، یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
جب تک تاجر خود کو رجسٹر کروانے کے لیے آگے نہیں آتے، کاروباری ادارے اپنی ٹیکس بچانے کی سرگرمی کو ٹیکس وصول کار کے سامنے آشکار کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتے، کثیر نیٹ ورتھ رکھنے والے افراد خود کو منظر عام پر نہیں لاتے تب تک محصولاتی پلان اس حد تک کارگر ثابت نہیں ہوگا جتنا کہ اسے ہونا چاہیے۔
اس پلان میں حالات کو بالکل یکسر طور پر بدلنے والی لوگوں اور اداروں کی ایک کثیر تعداد کی شمولیت کے بغیر حکومت ان لوگوں پر ہی ٹیکس لگاتی رہ جائے گی جو پہلے سے بھی زیادہ سرکاری ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔
آخر حکومت کتنے محاذ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ حکومت سیاسی مخالفت، خیبرپختونخوا میں ابھرتی ہوئی تحریک اور میڈیا سے لڑ نہیں سکتی اور اسی وقت میں کاروباری برادری، تاجر اور دیگر طاقتور گروہوں کے خلاف محاذ نہیں کھول سکتی۔
کسی ایک موڑ پر آ کر حکومت کو جھکنا ہی پڑے گا۔ اب جس دن وقتِ ضرورت آن پہنچا اس دن جو چہرہ حکومت پر چڑھا ہوگا اسی سے طے ہوگا کہ یہ وقت کب اور کیسے آئے گا۔
یہ مضمون 13 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔