Dawn News Television

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2019 03:48pm

'مشرقِ وسطیٰ میں بڑھکنے والی آگ کئی براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے‘

پورے مشرقِ وسطیٰ میں 2 سب سے اہم ترین مقامات آبنائے ہرمز اور باب المندب ہیں۔ جمعرات کو انہی 2 میں سے ایک مقام پر 2 آئل ٹینکروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اگر یہ ایک منظم حملہ ہوا ہے تو اس کی چنگاریاں تمام مشرقِ وسطیٰ کو جنگ کی آگ میں دھکیل دینے کی سکت رکھتی ہیں۔

انگریزی زبان کے ممتاز شاعر جان ملٹن نے 1667ء میں اپنی نظم ’پیراڈائز لاسٹ‘ میں لکھا تھا، ’شیطان ہیروں اور جواہرات سے مزین ایک شاہی تخت پر بیٹھا ہے اور اس کا قبضہ ہندوستان سے لے کر ہرمز کے خزانوں پر ہے۔‘

قیمتی موتیوں کی وجہ سے آبنائے ہرمز کو اس وقت بھی دنیا کے پوشیدہ خزانوں کا مقام قرار دیا جاتا ہے۔ جان ملٹن فارس کے ساحل کے سامنے واقع پہاڑی جزیرے کو اس وجہ سے بھی جانتے تھے کہ پرتگالیوں نے اسی کو بیس بناتے ہوئے کئی عشروں تک عیسائی سلطنت کا دفاع کیا تھا۔ یورپ اور ہندوستان کے طویل تجارتی راستے میں یہ ایک اہم فوجی اڈہ تھا۔

آج بھی آبنائے ہرمز کو عالمی تجارت اور اقتصادیات کی شہہ رگ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے خلیج میں کوئی بھی بحران دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

ابھی تک یہ تو واضح نہیں ہے کہ ناروے اور جرمنی کے بحری جہازوں کو کس وجہ سے نشانہ بنایا گیا؟ تاہم جہاز رانی سے متعلق اخبار ’ٹریڈ وِنڈز‘ نے اندرونی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان میں سے ایک بحری جہاز کو ٹورپیڈو میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

اگر یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اس حملے میں کسی ملک کا ہاتھ ہے یا پھر حملہ کرنے والوں کو کسی ملک کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ٹورپیڈوز حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی اس کا استعمال کوئی عام گروپ کرسکتا ہے۔ اس کے لیے خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے۔ عام بموں کی طرح انہیں کوئی عام دہشت گرد گروپ تیار بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی تیاری کے لیے صنعتی مہارت چاہیے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پہلے ہی شک ہے کہ چند روز پہلے ایک پائپ لائن اور 4 دیگر ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کے پیچھے بھی ایران کا ہاتھ تھا۔

دوسری جانب ایران کے پاس حقیقتاً پاسدارانِ انقلاب کا ایک ایسا یونٹ موجود ہے، جو آبنائے ہرمز میں ایسی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس یونٹ کی ایسی تصاویر بھی موجود ہیں، جن میں انہیں اسلحے سے لیس دکھایا گیا ہے۔

امریکا نے بھی الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے، ’ہمیں یقین ہے کہ ان واقعات کے پیچھے تہران کا ہاتھ ہے۔‘ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کا بیان بھی اسی سے مِلتا جُلتا ہے، لیکن ایران نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی ان حملوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش ضروری قرار دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ بھی امریکی دعوؤں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ویسے بھی ان حملوں کے حوالے سے ابھی تک کسی قسم کے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے، ابھی تک ان واقعات کی تحقیقات جاری ہیں۔ خارجہ امور کے ماہر اور قدامت پسند میکس بوٹ کی طرح کئی امریکی تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ واقعات خود کروائے ہوں تاکہ انہیں جواز بنا کر ایران کے خلاف جنگ شروع کی جاسکے۔

میکس بوٹ نے 1964ء کی مثال دی ہے، جب امریکا نے جان بوجھ کر ایک ٹورپیڈو میزائل حملے کا ڈرامہ رچایا تھا تاکہ ویتنام جنگ کی راہ ہموار کی جا سکے۔

لیکن اس مرتبہ بڑا فرق یہ ہے کہ ویتنام کی نسبت خلیج کی اس ممکنہ جنگ کے انتہائی تباہ کُن نتائج سامنے آئیں گے۔

اگر واقعی جنگ ہوتی ہے تو ایران آبنائے ہرمز کو بند کرسکتا ہے، جو عمان کے بھی قریب واقع ہے اور جس کے کنٹرول کے لیے 500 سال قبل پرتگالیوں نے لڑائیاں کی تھیں، جمعرات کو اسی علاقے میں 2 ٹینکروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ تیل ٹرانسپورٹ کرنے والے ایک تہائی سے زیادہ بحری ٹینکر اسی راستے سے گزرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دنیا بھر میں خام تیل کا 20 فیصد حصہ یہیں گزرتا ہے۔

آبنائے ہرمز خلیج کا سب سے تنگ بحری راستہ بھی ہے۔ ایک ساحل سے لے کر دوسرے ساحل کے درمیان صرف 39 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہاں پر خلیج کو کنٹرول کرنا سب سے آسان ہے۔ اگر یہ راستہ بند ہوتا ہے تو عالمی منڈیوں میں نہ صرف تیل کی قیمتیں آسمان کو چُھونے لگیں گی بلکہ اس خطے میں بے یقینی کی صورتحال پوری دنیا پر اثرانداز ہوگی۔

امریکا، متحدہ عرب امارات اور ایران گزشتہ کئی برسوں سے ایسی ہی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایران نے جب 2012ء میں آبنائے ہرمز کو بلاک کرنے کی دھمکی دی تھی تو اس وقت جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا تھا کہ ایران اس راستے کو بند کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے لیکن امریکا نے بھی اس کا توڑ تلاش کر رکھا ہے۔

تاہم امریکا اور ایران کے مابین کسی بحری جنگ کے نتیجے میں تیل یا پھر آبنائے ہرمز کی بندش کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے۔ عالمی تجارت کے لیے اس سے بھی بڑا مسئلہ اس کے جنوب مغرب میں واقع باب المندب کا ہے۔ باب المندب کو ’آنسوؤں کا دروازہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے، جو ایشیا اور افریقہ کو ملاتا ہے۔ یہی راستہ بحیرہ احمر اور سوئز کنال کو بحر ہند سے جدا کرتا ہے۔

اس راستے سے گزشتہ برس 18 ہزار سے زائد بحری جہازوں کی نقل و حمل نوٹ کی گئی تھی۔ باب المندب ہی چین اور یورپ کے درمیان تجارت کا سب سے چھوٹا راستہ فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ 11 برسوں میں اس راستے سے ہونے والی عالمی تجارت میں 77 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی بحران کا سب سے اہم مرکز باب المندب ہی ہے۔ اسی کے ساتھ واقع یمن میں ایران نواز حوثی ملیشیا نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر رکھا ہے۔ امریکا کا حمایت یافتہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا فوجی اتحاد گزشتہ 4 برسوں سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ یمن میں ایران اور سعودی عرب ایک ایسی جنگ میں پیسہ اور ہتھیار پھینک رہے ہیں، جو یورو-ایشیا تجارت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

حوثی باغیوں کو ایسے ایرانی راکٹ اور ڈرون فراہم کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے وہ سعودی دارالحکومت ریاض تک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حوثی باغیوں نے فخر سے اعلان کیا تھا کہ سعودی آئل پائپ لائن کو ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔ ابھی چند روز قبل ہی ابہا کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 2 درجن سے زائد عام سعودی شہری زخمی ہوئے۔

حالیہ چند برسوں میں ایران نے ڈرون ٹیکنالوجی میں کافی زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیلی فضائی حدود میں جو ڈرون داخل ہوا تھا وہ بھی ایران ہی کا ہی تیار کردہ تھا۔

حوثی باغیوں نے بھی حالیہ کچھ عرصے میں بحری جہازوں کے خلاف ڈرون حملوں میں اضافہ کررکھا ہے۔ اگر ان پانیوں میں آگ بھڑکتی ہے تو کئی براعظم متاثر ہوں گے اور اس کے شعلے یقیناﹰ پاکستان تک بھی پہنچیں گے۔

پاکستان کی گوادر بندرہ گاہ بھی یہاں سے دُور نہیں ہے۔ اقتصادی مفادات کی وجہ سے پاکستان کا ایران کی نسبت سعودی عرب کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں پاکستانی مفادات کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

Read Comments