اپنے صحافتی کیریئر میں متعدد گورنر اسٹیٹ بینک کو کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر شمشاد اختر جیسی دبنگ اور آزاد شخصیات کو اس نشست پر بیٹھے دیکھ چکا ہوں۔ ان شخصیات نے اپنی ملازمت کا دورانیہ بھی مکمل کیا تاہم حکومت کے ساتھ کشمکش کے بعد سید سلیم رضا، شاہد ایچ کاردار، یاسین انور اور طارق باجوہ بطور گورنر اسٹیٹ بینک اپنی مدت ملازمت پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اعلیٰ ترین شخصیات کی فرمائش پر ان سب افراد کو قبل از وقت استعفی دینا پڑا۔
اس وقت اگر ملکی معاشی ٹیم پر نظر ڈالی جائے تو اس کے 2 اہم ترین ستون یعنی گورنر اسٹیٹ بینک اور وفاقی مشیر خزانہ دونوں کو اگر درآمد شدہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وفاقی مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ پاکستان میں اس وقت آتے ہیں جب جھنڈے والی گاڑی ان کی پہلے منتظر ہوتی ہے اور موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر بھی پاکستان میں جھنڈے والی گاڑی میں سوار ہو کر آئے ہیں۔ اگر پاکستان کی معاشی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو رضا باقر جیسے بہت سے درآمدی معاشی ماہرین اس ملک میں اپنی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ پیش کرچکے ہیں اور ان انہی معاشی ماہرین کی وجہ سے معیشت آج اُن برے حالات میں ہے۔ محمد شعیب، محبوب الحق، نگران وزیر اعظم معین قریشی، وزیر خزانہ پھر وزیر اعظم شوکت عزیز کے بعد اب عبدالحفیظ شیخ کو خزانے کے معاملات سنبھالنے کے لیے لایا گیا۔
اسی طرح ڈاکٹر شمشاد اختر، یاسین انور کو بھی پاکستان لایا گیا مگر ان تمام افراد کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کیا اصلاحات کیں؟ اور کیا ان کے نتیجے میں معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی یا ایسی معاشی پالیسی وضح کی کہ جو پاکستان کو ہر بار آئی ایم ایف کے دروازے پر لے گئی؟
رضا باقر کا اعتماد اور گفتگو باقی تمام گورنر سے مختلف ہے اور لگتا ہے کہ ان کا اعتماد میں وہ طاقت بول رہی ہے جسے چھوڑ کر وہ پاکستان آئے ہیں اور جہاں انہوں نے دوبارہ جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ رضا باقر اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ہی جائیں گے، کیونکہ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت 3 سال ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدے کی مدت بھی یہی ہے۔ چنانچہ جب تک پاکستان آئی ایم ایف کے اس پروگرام سے جُڑا رہے گا اس کی نگرانی بھی اسی کا بااعتماد فرد کرے گا۔
رضا باقر کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت گورنر اسٹیٹ بینک نہیں بلکہ پوری ملکی معیشت چلا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ رضا باقر اسٹیٹ بینک کے امور انجام دینے کے ساتھ حکومت کو دیگر معاشی فیصلوں میں اپنی مشاورت سے مستفید کرتے رہیں گے۔
مگر یہ سوال اہم ہے کہ کیا حکومت ایک آزاد اسٹیٹ بینک اور اس سے بھی آزاد گورنر اسٹیٹ بینک کو برداشت کرسکے گی؟
مستقبل میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ رضا باقر ماضی کی طرح اسٹیٹ بینک کے معاشی جائزے میں حکومتی اقدامات پر تنقید کو جاری رکھ پائیں گے اور مانیٹری پالیسی کو آزادی سے طے کرسکیں گے یا نہیں۔ لگتا تو مشکل ہی ہے۔