جہاں تک گوشت کے دام بڑھنے کا تعلق ہے تو اس کا غریب آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ بلّی اور پاکستان کے غریب آدمی کو تو اب خواب میں بھی چھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں۔ بلّی خوش نصیب ہے کہ اس کے بھاگوں کبھی کبھی چھینکا ٹوٹ جاتا ہے، غریب کے سر پر تو مسلسل قیامت ہی ٹوٹ رہی ہے۔
غریب اب صرف قربانی ہی کا گوشت کھاسکتے ہیں، مگر وہ بھی ہر قربانی کے بکرے کا نہیں، خاص طور پر ان بکروں کا جنہیں ’وعدہ نبھانے‘، حکومتی کارکردگی سے توجہ ہٹانے اور حکومت کو مشکلات سے بچانے کے لیے قربان کیا گیا اور کیا جارہا ہے، کیونکہ ایک تو ان کی کھال بہت موٹی ہے لہٰذا اترے گی ہی نہیں، دوسرے یہ اتنے ’بڑے‘ ہیں کہ ان کا گوشت گلنے کا نہیں۔
بجٹ میں سیمنٹ، اینٹوں اور سریے کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، بالکل صحیح بڑھی ہیں۔ بتاو بھلا، جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے لوگ دھڑا دھڑ مکان بنائے اور اپنے گھروں میں توسیع کیے جارہے ہیں۔
ہوا یہ ہے کہ حکومت نے لوگوں کو اتنی خوشیاں دی ہیں کہ وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے، پھولتے پھولتے اتنا پھول گئے ہیں کہ ان کے گھر ان کے لیے چھوٹے پڑگئے اور وہ بالکل اسی طرح اپنے گھروں میں پھنس گئے جس طرح بعض لوگ ’شیروانی‘ میں پھنس جاتے ہیں، بس پھر کیا تھا، تعمیر اور وسعت کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ ملک سیمنٹ، اینٹوں اور سریے کی شدید کمی کا شکار ہوگیا۔ اس صورت حال میں ان اشیا کی قیمتیں بڑھا کر حکومت نے نہایت دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔
رہی کاسمیٹکس مہنگی ہونے کی بات، تو ہم اس راز سے پردہ اٹھادیں کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد پاکستانی خواتین نے کاسمیٹکس کا استعمال ترک کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ہمہ وقت روتی رہتی ہیں، ادھر میک کیا اور ادھر آنسوؤں نے دھو ڈالا۔ خواتین کیوں روتی ہیں؟ اس کا سبب سامنے نہیں آیا، ہمارے خیال میں یہ خوشی اور شکرانے کے آنسو ہیں جو تھم کے نہیں دے رہے۔
اچھا اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت نے اشیا کی قیمتیں صرف بڑھائی ہیں، نہیں بھائی نہیں، کم بھی تو کی ہیں، جیسے بیکری اشیا اور ریسٹوینٹس میں ٹیکس پر کمی کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اے پیارے عوام! اگر مہنگائی کی وجہ سے کھانا پکانے کے لالے پڑگئے ہیں تو کوئی بات نہیں بیکری سے لاکے کھاو یا ریسٹورینٹس میں جاکے کھائو، مگر بات سنو گھبرانا نہیں ہے، میں ہوں ناں۔