میرا حافظہ اب میرا ساتھ نہیں دیتا ورنہ میں آپ کو ضرور بتاتا کہ میں یہاں کیسے آیا تھا۔ ذہن پر بہت زور دے کر سوچوں تو 2 باتوں کی طرف دھیان جاتا ہے اور میں آپ کو یہ بات نہیں بتا سکتا کہ ان میں سے کون سی بات دُرست ہے۔ دراصل کنویں میں کوئی بھی بات مکمل طور پر درست نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی میں بتا ضرور دیتا ہوں۔
پہلی بات: ایک روز مجھے کہا گیا کہ جاکر کنویں میں گند پھینک کر آؤ، سو جب میں گند پھینک رہا تھا تو میرا پاؤں لڑکھڑا گیا اور میں اس دن سے کنویں میں ہوں۔
دوسری بات: دراصل مجھے چند لوگوں نے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر مل کر اوپر سے دھکا دیا تھا۔ کیونکہ شروع شروع میں میرے ہاتھ پاؤں بندھے رہتے تھے اور وہ رسی اب بھی کبھی کبھار میرے پاؤں سے الجھ جاتی ہے۔
رسی کے علاوہ مجھے جس چیز سے الجھن محسوس ہوتی ہے وہ یہاں کے زہریلے کیڑے مکوڑے ہیں جو وقتاً فوقتاً میرے ہاتھ اور پاؤں پر کاٹتے رہتے ہیں۔ اب چونکہ یہاں تاریکی ہی تاریکی ہے تو میری آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوسکیں، جس کے سبب میں زہریلے حشرات الارض سے بچ نہیں پاتا۔ اگرچہ میں اپنے جسم پر انہیں رینگتے ہوئے محسوس کرسکتا ہوں لیکن میں بھاگ کر جاؤں بھی تو جاؤں کہاں؟ اگر یہاں روشنی ہوتی تو آپ دیکھتے کہ میرا جسم اب نیلا ہوچکا ہے اور مسلسل کھڑا رہنے سے پاؤں سُوج چکے ہیں لیکن میں یہ زخمی جسم کسی کو دِکھا نہیں سکتا۔
اور ویسے بھی کنویں کی تہہ میں پانی کی مقدار مسلسل کم ہوتی جارہی ہے سو مجھے نہیں لگتا کہ میں زیادہ عرصہ یہاں زندہ رہ سکتا ہوں۔
میری آنکھیں روشنی کے لیے، کان لوریاں سننے اور زبان کوئی بات اونچی آواز میں کہنے کو ترس رہی ہے اور کنویں میں دیکھنے کو اندھیرا ہے، سننے کو زہریلے کیڑے مکوڑوں کی نہ سمجھ میں آنے والی آوازیں اور میری خر، خر ہے وہ بھی کسی کو سمجھ نہیں آسکتی۔
’چیخوں؟؟؟؟‘
خر، خر۔۔۔۔ آخر یہ خر، خر کتنی دیر ہوتی رہے گی؟
اوپر کوئی آرہا ہے۔
ہاں کوئی ہے۔۔
مجھے زور سے چیخنے دیجیے کہ شاید میری آواز کسی کو سُنائی دے جائے۔
’خرررررررررررررررررررر‘
’خرررررررررررررررررررر‘
آہ! میرے گلے سے اس کے علاوہ کوئی آواز نہیں نکل رہی، باقی آوازوں کے بارے میں صرف سوچ سکتا ہوں اور اس کنویں میں صرف سوچ کے سہارے زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔