'سائیں ایک مسئلہ ہے'، میں نے ڈبی سے سگریٹ نکالتے ہوئے کہا۔

'ایک نہیں ہزار مسائل ہیں میرے بچے، ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔' سائیں نے سگریٹ کو انگلیوں میں دبوچ کر ایک گہرا کش لگایا اور ماحول چرس کی بُو سے داغدار ہوگیا۔

'ایک تو یہ تیری چرس کی بُو بہت ہوتی ہے سائیں۔ ابکائی آنی شروع ہوجاتی ہے۔' میں نے بدمزہ ہوتے ہوئے شکوہ کیا۔

'چرس میری خواہش ہے'، سائیں نے اپنی گدلی آنکھیں میچ کر کہا۔

'ضرور ہوگی لیکن اس خواہش کی بُو بہت ہے'، میں نے شکایتی لہجے میں کہا۔

'ہر خواہش کی بُو ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں دوسروں کی خواہشات کی بُو تو آجاتی ہے، اپنی خواہشات کی نہیں آتی۔ اپنی خواہش خوشبودار اور روشن اور دوسروں کی خواہش بدبودار اور تاریک گناہ'، سائیں نے ایک بلند قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔


سائیں کالو، دربار پر باقاعدگی سے بیٹھتا تھا۔ کہیں سے آتا تھا یا وہیں رہتا تھا، یہ میں نہیں جانتا۔ بس میری دوستی تھی اس کے ساتھ اور اس دوستی کی ابتدا کچھ برس پہلے جون کے مہینے میں ہوئی تھی۔ کیسے ہوئی تھی؟ یہ پھر کبھی میں آپ کو بتاؤں گا۔


'بول کیا مسئلہ ہوگیا ہمارے یار کے ساتھ؟' سائیں نے میری سگریٹ کو ماچس کی تیلی کا شعلہ دکھاتے ہوئے پوچھا۔

'مسئلہ یہ ہے کہ محبت ہوتی ہے، بہت دفعہ ہوتی ہے، لیکن محبت میں مزہ نہیں آتا'، میں نے ایک ستون سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔

کچھ فاصلے پر ایک لڑکی فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔ معلوم نہیں وہ کون تھی اور دربار پر کیوں آئی تھی لیکن انتہائی حسین تھی اور اس کے چہرے پر ایک نیم شرارتی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ میں نے اس کی دعوت بھری مسکراہٹ کو ستائش بھری نظروں سے دیکھا۔

'ایک تو تم جیسے ذہین لوگوں کے ساتھ یہ بہت گڑبڑ ہوتی ہے۔ پکوڑے کھانے کے بجائے، پکوڑوں کے گھی میں تربتر اخبار کے ٹکڑے کو پڑھنے لگ جاتے ہو۔ ارے بھائی! پیسے پکوڑے کھانے کے لیے خرچ کیے تھے یا اخبار پڑھنے کے لیے؟' سائیں نے پکوڑوں کے ایک ٹھیلے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی۔

ٹھیلے والے کو آواز دے کر بلایا اور آدھا کلو پکوڑے اور 2 کپ چائے کے منگوائے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ سائیں کو بھوک لگی ہے، کیونکہ وہ ایسے استعارے اسی وقت استعمال کرتا ہے جب بہت بھوک لگی ہو۔

'بات یہ ہے منڈیا'، سائیں نے پکوڑے ختم کرکے باری باری انگلیاں چاٹتے ہوئے کہا۔

'محبت گوشت قیمے کی کباب نہیں ہوتی کہ سیخ پر چڑھائی اور بھڑکتے کوئلے کی آگ پر سینک کر، فوری چٹ کر گئے۔ محبت کی ہانڈی دھیمی آنچ پر ہی پک سکتی ہے اور پکتے پکتے بہت وقت لیتی ہے۔ محبت صبر مانگتی ہے، محبت حوصلہ مانگتی ہے اور کبھی کبھی تو محبت پوری کی پوری زندگی ہی مانگ لیتی ہے'، سائیں اب کچھ سنجیدہ ہوگئے تھے۔

'مگر مجھے تو بار بار محبت ہوتی ہے اور ہر دفعہ تمہاری اس چرس کی بُو کی طرح سر کو چڑھ جاتی ہے'، میں نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔

'اوئے میرے بھولے منڈیا'، سائیں کالو نے میرے کندھے پر زور کا ایک ہاتھ رسید کرتے ہوئے کہا: 'تو جس کو محبت سمجھتا ہے، وہ محبت نہیں ہے صرف چسکہ ہے چسکہ۔ جن کو گرما گرم کباب چٹ کرنے کا چسکہ لگ جاتا ہے نا، پھر وہ ہانڈیاں پکنے کا انتظار نہیں کرتے۔'

سائیں نے پرچ میں چائے کے 2 گھونٹ انڈیل کر سڑکتے ہوئے پوچھا 'اچھا یہ بتا کہ کیا کبھی محبت میں مزا بھی آیا تھا؟'

سائیں نے یہ پوچھا اور مجھے فوراً گیتی آرا یاد آگئی۔


گیتی آرا، جو بہت حسین تو نہیں مگر انتہائی پُرکشش ضرور تھی۔ اتنی پُرکشش کہ پہلی دفعہ دیکھنے پر، کچھ ان گنت لمحات کے لیے میری نظریں اس کے نمکین چہرے پر ٹھہر سی گئی تھیں۔

وہ سیاہ ریشمی ساڑھی میں ملبوس تھی اور میک اپ کے نام پر صرف گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگا رکھی تھی۔ متناسب اور آبنوسی سنگ مرمر سے تراشیدہ مورتی سا جسم، کشادہ اور روشن پیشانی، کتابی چہرہ اور گھنی پلکوں کی اوٹ سے جھانکتی دو گہری بھوری آنکھیں، جیسے گلابی افق کے اس پار سے مجھے تکتی ہوں۔

اس کو دیکھ کر میرے ذہن میں اچانک، سرمئی بارش میں بھیگتے چیڑ کے کسی اکیلے اور سروقد پیڑ کا خیال آیا اور یہ سوچتے ہی میرے نتھنوں میں پہاڑی بارش کی خوشبو چپکے سے سرک آئی۔

یہ بات بلاشبہ درست ہے کہ میں بچپن سے ہی بہت زیادہ دل پھینک واقع ہوا تھا۔ میرے دل کے لیے حسن، کیلے کا چھلکا تھا، جہاں خوبصورت چہرہ دیکھا، فوراً سے پھسل گیا۔ میرا اس بات پر کامل یقین تھا کہ حسین آنکھوں میں کوئی سحر مقید ہوتا ہے، جہاں نظریں ملتی ہیں، سحر پھونکا جاتا ہے۔

لیکن گیتی آرا میں کوئی خاص بات ضرور تھی۔ کیونکہ مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے وقت کے دریا کے کسی کنارے ہم دونوں، کچھ دیر کے لیے ہی سہی، مگر ساعتوں کے پانی میں پاؤں لٹکائے کبھی بیٹھے ضرور تھے۔


'ہاں ایک دفعہ محبت میں مزہ ضرور آیا تھا‘۔ میں نے آنکھوں کی نمی ہاتھ کی پشت سے پونچھتے ہوئے سائیں کو جواب دیا۔ 'شاید وہ پہلی نظر کی محبت تھی۔'

'بس یہی تو سارا مسئلہ ہے منڈیا'، سائیں یکایک اٹھ کر بیٹھ گیا۔

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سائیں بولا کہ 'محبت کبھی بھی پہلی نظر میں نہیں ہوتی۔ پہلی نظر خواہش کی نظر ہوتی ہے۔ چاہت محبت کا بند دروازہ ہوتی ہے جو صرف خواہش کی چابی سے کھلتا ہے۔'

'پھر کیا ہوتا ہے؟'، میں پوچھے بغیر رہ نہ سکا۔

'پھر'، سائیں نے لمبا سانس لے کر کہا۔ 'پھر یہ چاہت دل کی ہانڈی میں، وقت کی آگ پر، بہت دیر تلک پکتی ہے۔ آخر میں اس ہانڈی کو باہمی احترام اور باہمی ستائش کے دم کی ضرورت پڑتی ہے۔ پھر کہیں جاکر محبت کی ہانڈی تیار ہوتی ہے۔'

'تو پھر یہ کیا ہے؟' میں نے ہاتھ سے دُور بیٹھی لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔

'یہ سب خواہش ہے۔ خواہش ڈیلیا کا پھول ہوتی ہے، رنگ دار اور دلکش اور محبت موتیے کا پھول ہوتی ہے، سادہ اور سفید لیکن خوشبودار۔ ڈیلیا کے ہزار پھول مل کر بھی موتیے کے ایک پھول کی خوشبو کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔'


میں جاتے ہوئے اس لڑکی کے قریب سے گزرا تو وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔ لیکن میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ میرے آس پاس صرف موتیے کی خوشبو کا راج تھا۔ اب ڈیلیا کے پھولوں کے لیے میرے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Khuzaima Suleman May 10, 2019 03:05pm
بہت عمدہ، بہت خوبصورت۔ لطف آگیا پڑھ کر۔ کیا لطافت ہے، کیا روانی ہے۔ شاندار۔ مزید ایسی تحریریں پڑھنے کے لیے منتظر رہیں گے۔
شہریار خاور May 13, 2019 05:34am
@Khuzaima Suleman بیحد نوازش