ایک پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ حکومت کے مطابق پریس پر عائد پابندیوں سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کوئی بھی ہو لیکن آخر میں میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ریاستی معاملات چلانے کا کام سیکیورٹی اداروں پر چھوڑنا انتہائی خطرناک عمل ہے۔
تاریخ کا ایک سبق جو عمران خان کو ضرور سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی کبھی بھی حکومت کو استحکام نہیں بخش سکتی ہے۔ یہ ایک حصار بند ذہنیت ہے اور اس حصار کو انہیں اپنے ہی بھلے کے لیے توڑنا ہوگا۔
بلند و بانگ آواز میں تنقید کرنے والی حزبِ اختلاف کا سامنا کرنا بھی جمہوری سیاسی عمل کا ایک حصہ ہے۔
یہ تو صاف ظاہر ہے کہ حزبِ اختلاف نہ تو حکومت کا تختہ الٹنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی ایسی کسی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ تاہم وزیرِاعظم نے اپنی محاذ آرائی کی پالیسیوں کی وجہ سے حکومت کو انتہائی غیرمستحکم بنا دیا ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ سیکیورٹی اداروں پر منحصر کر رہے ہیں۔
اس وقت ملک کو سنگین مالی بحران اور اندرونی و بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کی صورت بلاشبہ انتہائی مشکل وقت کا سامنا ہے۔ بد سے بدتر ہو رہے سیاسی عدم استحکام سے ان چیلنجز سے نمٹنا اور بھی کٹھن ہوجائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قلیل وقتی فوائد کی خاطر مختلف سیاسی حکمت عملیوں کا سہارا لینے کے بجائے ملک کے طویل مدتی مفادات کو ترجیح دے۔
یہ مضمون 3 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔