لاہور میں گمشدہ چوبرجی کی تلاش اور مقبرہ زیب النساء
میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا کہ اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی اور آنکھ کھل گئی۔ اسکرین دیکھی تو فاروق صاحب کی کال تھی جو انگلینڈ کے باسی اور میرے بزرگ دوست عبدالباری صاحب کے قریبی عزیز تھے، اور ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ جب ان سے کچھ دن پہلے ملاقات ہوئی تھی تو میں نے باتوں ہی باتوں میں ان سے اندرونِ شہر دکھانے کا وعدہ کرلیا تھا، لہٰذا جیسے ہی موبائل پر فاروق صاحب کا نام نمودار ہوا تو مجھے فوراً اپنا وعدہ یاد آگیا۔
میں نے کال رسیو کی تو کہنے لگے ہاں بھائی کیا پروگرام ہے؟ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو چلیں؟ جواباً میں نے کہا کہ وہاں بھی ضرور چلیں گیں مگر یہاں ہمارے نزدیک ایک حسینہ اپنے ڈھلتے حُسن پر نوحہ کناں ہے اور ایک طویل عرصے سے اپنی شناخت کی متلاشی ہے۔ اس کا وجود قید کی حالت میں ہے۔ ہمسایوں کی بے اعتنائی نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس کا وجود دیکھ کر فوری اندازہ ہوجاتا کہ اپنی بھرپور جوانی کے دنوں میں حُسن ٹوٹ کر برسا ہوگا۔
میری باتیں سن کر فاروق صاحب کہنے لگے تو پہلے اس حسینہ سے ملاقات کرتے ہیں، یوں ہم دونوں ملاقات کے لیے نکل پڑے۔ علامہ اقبال ٹاؤن سے ملتان روڈ کی طرف جائیں تو اسکیم موڑ آتا ہے جہاں سے پھر یتیم خانے سے آگے جانے پر نواں کوٹ کا علاقہ آتا ہے اور یہی جگہ ہمارا مقام مقصود ہے۔
ملتان روڈ کی طرف سے جائیں تو دائیں ہاتھ اور اگر چوک چوبرجی سے آئیں تو بائیں ہاتھ پر سڑک کنارے شہزادی زیب النسا کے نام سے منسوب مزار آتا ہے۔ شہزادی زیب النسا شہنشاہ ہندوستان اورنگزیب عالمگیر اور دلرس بیگم کی صاحبزادی تھیں اور فارسی زبان کی شاعرہ تھیں۔
زیب النسا نے مخفی کے تخلص سے شاعری کی۔ 1929ء میں دہلی سے اور 2001ء میں ایران میں مخفی کے نام سے ان کا دیوان بھی شائع کیا گیا۔ زیب النسا نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ زیب النسا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 3 سال کی عمر میں قران پاک حفظ کرلیا تھا۔ تاریخ کے حوالے یہ بھی بتاتے ہیں کہ زیب النسا نے اپنی عمر کے آخری 20 سال قید میں گزارے تھے۔
1662ء میں جب اورنگزیب عالمگیر کی طبیعت ناساز ہوئی تو فضا کی تبدیلی کے لیے لاہور کا رخ کیا گیا۔ وہ خاندان کے دیگر افراد بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس وقت لاہور پر ان کے ایک وزیر کا بیٹا عاقل خان گورنر تعینات تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادی زیب النسا اور عاقل خان ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوگئے، بادشاہ کو یہ بات گوارا نہ ہوئی لہٰذا شہزادی زیب النسا کو قیدِ تنہائی میں ڈال دیا۔