وہ بھی کیا دیار ہوں گے جہاں بارش ہوتے ہی باغوں میں جھولے پڑجاتے ہیں، ہمارے کراچی میں تو ذرا سی ٹِپ ٹِپ بھی ہوجائے تو مصبیتیں گلے پڑجاتی ہیں، اور ہم اس سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ جب خُدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا تو کراچی کو بارش کیوں دیتا ہے؟
اس نگر میں جسے روشنیوں کا شہر کہہ کر چھیڑا جاتا ہے، بادل برستے ہیں تو سڑکوں پر پانی کھڑا ہوجاتا ہے، ساتھ ہی بلبوں اور ٹیوب لائٹوں میں لیٹی ہوئی بجلی جَھٹ پَٹ کھڑی ہوکر دوڑ لگادیتی ہے۔
ہماری اب تک سمجھ میں نہیں آیا کہ ہماری سڑکوں پر پانی آخر کھڑا ہی کیوں ہوتا ہے؟ بیٹھتا اور لیٹتا کیوں نہیں؟ بھئی تمہارے لیے کتنی محنت سے سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے بنائے ہیں کہ آکے لیٹو بیٹھو، جب تک دل چاہے پڑے سڑتے رہو، یہ کھڑے ہونے کی کِیا تُک ہے؟ خیر ہمارا تو نل کے پانی پر اختیار نہیں یہ تو بارش کا پانی ہے۔