’کے الیکٹرک‘ کی ’غیر نصابی‘ خدمات

وہ بھی کیا دیار ہوں گے جہاں بارش ہوتے ہی باغوں میں جھولے پڑجاتے ہیں، ہمارے کراچی میں تو ذرا سی ٹِپ ٹِپ بھی ہوجائے تو مصبیتیں گلے پڑجاتی ہیں، اور ہم اس سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ جب خُدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا تو کراچی کو بارش کیوں دیتا ہے؟
اس نگر میں جسے روشنیوں کا شہر کہہ کر چھیڑا جاتا ہے، بادل برستے ہیں تو سڑکوں پر پانی کھڑا ہوجاتا ہے، ساتھ ہی بلبوں اور ٹیوب لائٹوں میں لیٹی ہوئی بجلی جَھٹ پَٹ کھڑی ہوکر دوڑ لگادیتی ہے۔
ہماری اب تک سمجھ میں نہیں آیا کہ ہماری سڑکوں پر پانی آخر کھڑا ہی کیوں ہوتا ہے؟ بیٹھتا اور لیٹتا کیوں نہیں؟ بھئی تمہارے لیے کتنی محنت سے سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے بنائے ہیں کہ آکے لیٹو بیٹھو، جب تک دل چاہے پڑے سڑتے رہو، یہ کھڑے ہونے کی کِیا تُک ہے؟ خیر ہمارا تو نل کے پانی پر اختیار نہیں یہ تو بارش کا پانی ہے۔
جہاں تک تعلق ہے بجلی کا تو وہ بہت شرمیلی ہے، جوں ہی اسے خبر ملتی ہے ’پانی آرہا ہے‘ شرماتی لجاتی ’اوئی اللہ‘ کہہ کر غائب ہوجاتی ہے۔ بجلی کے اس قدر شرمیلے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اجنبیوں سے زیادہ مانوس نہیں، یوں تو پورا کراچی ہی اس کے لیے غیر اور نامانوس ہے، کیونکہ اس کا یہاں رہنا جو کم ہوتا ہے، اور پانی تو اس کے لیے بالکل ہی اجنبی ہے، کہ وہ بھی اس شہر میں کم کم ہی آتا ہے۔
ذکر بجلی کا ہے تو آپ کو یہ بھی بتادیں کہ شہر کو بجلی کی فراہمی ’کے الیکٹرک‘ کی ذمے داری ہے۔ اس ادارے کا نام پہلے ’کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن‘ (کے ای ایس سی) تھا پھر شاید ’نام بڑا درشن چھوٹے‘ (بجلی کے درشن) کے محاورے کو پیش نظر رکھتے ہوئے نام میں تخفیف کردی گئی۔
سنتے ہیں کہ ایک روز کچھ دیر کے لیے حکمرانوں اور کے ای ایس سی کے حکام کا ضمیر غالباً پی ایم ٹی اُڑنے سے ہونے والے دھماکے کے باعث جاگا، جس کے جاگتے ہی انہیں اس ادارے کے نام میں ’سپلائی‘ کے لفظ پر بڑی زور کی شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نام بدل کرکے ’کراچی الیکٹرک گھپلائی کارپوریشن‘ کردیا جاتا، مگر اختصار پسندی کے پیش نظر ادارے کو ‘کے الیکٹرک‘ کی شناخت دے دی گئی۔
اب یہ مختصر نام والا ادارہ اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے مختصر اوقات کے لیے بجلی فراہم کرتا ہے۔ نام مختصر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کو سہولت رہے اور وہ بجلی جانے پر ’کے ای ایس سی‘ کہہ کر ادارے کی شان میں جو ’قصیدے‘ پڑھتے ہیں وہ صرف ’کے الیکٹرک‘ کہہ کر پڑھے جائیں تاکہ عوام کا قیمتی وقت بچے۔
کے الیکٹرک کے فرائض میں بجلی کی ترسیل و فراہمی کے علاوہ بجلی پیدا کرنا بھی شامل ہے۔ بجلی کی پیداوار کے ضمن میں کراچی کے شہریوں کی ضرورت کے بجائے ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کے اصول پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ ادارہ سمجھتا ہے کہ کم بچوں کی طرح کم بجلی پیدا کرنا ہی ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہے۔ اسی روش پر چلتے ہوئے ادارے کے حکام بجلی کی فراہمی کی طرح اس کی پیدائش میں بھی وقفے کے قائل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کے الیکٹرک بہت کام کر رہی ہے، مگر اپنے کام کے علاوہ۔ ویسے ہمارے ہاں چلن بھی یہی ہے۔ ڈیم بنانا کسی کا کام ہے ذمے داری کوئی اور لیتا ہے۔ سیاست کسی کا فریضہ ہے کرتا کوئی اور ہے، سو اگر کے الیکٹرک ’غیر نصابی خدمات‘ انجام دے رہی ہے تو اس پر اعتراض کیسا؟
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔