بلاشبہ ملک کی (ناساز) صحت سے وابستہ صنعت کے لیے ایک زبردست بات ہے۔ ہسپتال، لیبارٹریاں، ڈاکٹر، عطائی ڈاکٹرز اور دوا سازی سے تعلق رکھنے والے لوگ خوب کمائی کیے جا رہے ہیں۔ ان سب کی آمدن ہماری بیمار معیشت میں اپنا مثبت حصہ تو ڈال رہی ہے لیکن لیبر کی عمومی پیداواری صلاحیت کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
پاکستان میں انسانی جسم کی صحت کا خیال رکھنا ایک خاصا مہنگا کام ہے، سوچیے کہ بوتل بند پانی اور دوائیوں پر ایک اوسط درجے کے شخص کی آمدن کا کتنا حصہ خرچ ہوجاتا ہوگا۔
اب اس کا حل کیا ہے؟ ریاست سے کسی قسم کی توقع کرنا فضول ہے۔ اس معاملے میں تمام حکومتیں ہی ناکام ہوچکی ہیں، اور وہ شخص جو اس فکر میں ہی مبتلا رہتا ہے کہ کہیں گھر کا کھانا رانا ثنااللہ تک نہ پہنچ جائے اس سے بھی کچھ خاص توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتی ہیں۔
یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس میں صارفین کو سوک دباؤ اور قانونی طریقہ کار کے ذریعے اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی۔ اگر کوئی اس تصدیق شدہ ویڈیو کو منظرِ عام پر لائے تو شاید اس سے مدد مل سکتی کہ جس میں ایک ریگولیٹر ذبح خانہ کے مالک کے ساتھ رقص کر رہا ہے۔
یہ مضمون 4 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔