ہسپتال میں گزری 4 راتوں کے دوران عملے نے مجھے آرام پہنچانے مین کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تیسرے دن اسپین کے مشرقی ساحلی کنارے پر واقع ویلنشیا سے ایمبولینس ہسپتال پہنچی۔ ڈرائیور جووان اور فرشتہ صفت دیلیا نامی نرس کو مجھے دوسرے ہسپتال پہنچانے کا ذمہ دیا گیا تھا۔
مجھے سفر کا سوچ کر ہی خوف آ رہا تھا لیکن اگلی صبح جب ہم نے سفر کا آغاز کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ دیلیا کے پاس ہر قسم کی پین کلرز موجود ہیں اور 10 گھنٹوں کی ڈرائیو کے دوران وہ بنا آنکھ جھپکے میرے پاس بیٹھی رہیں۔ میرے آرام کا اس قدر خیال رکھا گیا تھا کہ 900 کلومیٹر کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔
جب ہم دوسرے ہسپتال پہنچے تو عملے کو ہمارا منتظر پایا۔ صرف 3 منٹوں پر مشتمل رجسٹریشن عمل مکمل کرنے کے بعد مجھے اپنے کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ اسی شام ڈاکٹروں نے پیر کے روز ہونے والی میری سرجری کی تیاری شروع کردی۔ آپریشن ٹیم کی رہنمائی آرتھوپیڈک و ٹراما کنسلٹنٹ ڈاکٹر احمد رجب کر رہے تھے۔ اس قسم کا آپریشن عام طور پر ایک گھنٹے میں ہی مکمل کرلیا جاتا ہے لیکن میرے کیس میں یہ 4 گھنٹوں میں مکمل ہوا۔ کاش میرے پاس یہاں ہر اس ایک شخص کا نام لکھنے کی گنجائش ہوتی جنہوں نے تکلیف کے ان لمحات میں میرا بے حد خیال رکھا۔
ہسپتال میں میرا جس طرح خیال رکھا گیا اسے دیکھ کر میں حیرت زدہ تھا۔ جمعرات کے روز میرے سرجن نے مجھے ڈسچارج کردیا اور ایمبولینس کے ذریعے گھر پہنچا دیا۔ اگلے پیر کو میری پٹی بدلنے اور ہفتے بعد آپریشن کے ٹانکیں کھولنے نرس خود ہمارے پاس آئیں۔ 3 ہفتوں بعد میں نے ایک بار پھر ننھے قدموں کے ساتھ چلنا شروع کردیا تھا۔
مجھے پوری طرح ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا اور مجھے اپنے اندر صبر و برداشت کا وہ مادہ دوبارہ پیدا کرنا پڑے گا جو مجھ میں تقریباً ناپید ہوچکا ہے۔ مجھے کہا گیا ہے کہ اگلے چند ہفتے مجھے تکلیف میں گزارنے ہوں گے۔ مگر سچ کہوں تو میں شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے نصیب میں یہ جو واقعہ لکھا تھا وہ اسپین میں ہی پیش آیا کہ جہاں جس انداز میں خیال رکھا جاتا ہے اور طبی عملہ جس دردمندی کا مظاہرہ کرتا ہے اس کا تصور اکثر خوابوں میں ہی ملتا ہے۔
یہ مضمون 17 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔