خیر پی ٹی آئی حکومت سے یہ کم ہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اپوزیشن ارکان کو شامل کرنے کے لیے تیار ہوگی، ظاہر ہے کہ اس طرح اس انسدادِ کرپشن مہم کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے جو پی ٹی آئی کے لیے اب بھی دکان چمکائے ہوئے ہے۔ تاہم پی ٹی آئی غیر سرکاری سطح پر تو عوامی اتحاد کے قیام کی کوششوں کا رسک ضرور اٹھا سکتی ہے۔
اس کام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت میڈیا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب اپنے رویے میں تبدیلی لائے کیونکہ یہ ذرائع ریاست اور شہریوں کے درمیان پُل کا کام انجام دے سکتے ہیں اور کشمیر کاز کی حمایت کے لیے قومی مہم کو جامع اور مؤثر بناسکتے ہیں۔
میڈیا کی بات کی جائے تو جس سنگین بحران نے اس کا جینا حرام کردیا ہے اس سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا ہے۔ صحافی آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے ڈرے ہوئے ہیں اور سرکاری مؤقف کو واحد سچ بتا کر خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
آزادئ اظہار کو قومی سلامتی کے مطالبات سے جوڑنے کے سبب ہی یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے، سچ تو یہ ہے کہ قومی سلامتی کو آزاد اور خودمختار میڈیا کے ذریعے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ملک کو ان میڈیا پرنسز کی تجاویز کی ضرورت ہے جنہوں نے کئی حکمرانوں کا عروج و زوال دیکھا ہے اور وہ موجودہ صورتحال کو معقول زوایہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف آزادئ اظہار کے احترام سے ہی میڈیا وہ سب رپورٹ کرسکے گا جو سب پڑھے لکھے اور صاحبِ شعور شہری حکومت تک پہنچانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
ٹھیک اسی طرح، اب وقت آچکا ہے کہ حکومت سول سوسائٹی کے اہم کردار کو سمجھے جو کشمیری عوام کی جدوجہد کی حمایت میں عوامی رائے کو متحرک کرنے میں بھرپور انداز میں ادا کرسکتی ہے۔ سرکاری ریکارڈ رکھنے والوں نے شاید یہ نوٹ کیا ہو کہ اسلام آباد کی ہِٹ لسٹ میں شامل ہیومن رائٹس واچ نامی بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے نے ہی مودی کی سیاست کو پاکستان کے کئی دیگر بیرونی دوستوں سے زیادہ واضح اور مؤثر انداز میں مذمت کی۔
سول سوسائٹی کی قومی پالیسیوں کی مناسب تشکیل اور ان کے نفاذ میں مدد کرنے اور اس کی نگرانی، تصحیح اور بہتری لانے کی صلاحیت پر اگر تھوڑا اعتماد بھی ظاہر کیا جائے تو اس سے کافی سودمند فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
جس لڑائی میں حکومت کُود چکی ہے اس میں اگر میڈیا اور سول سوسائٹی کی مناسب شمولیت نہ ہوئی تو قومی مہم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ مضمون 22 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔