آئی اے رحمٰن
آئی اے رحمٰن

مودی سرکار کشمیری عوام کے گلے میں پھنڈا ڈالنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اسی لیے انہیں آزادی کے خواب ترک کرنے پر بزور بازو مجبور کر رہی ہے، لیکن ہماری ریاست نے مودی حکومت کے اس منصوبے کو شکست دینے کا چیلنج قبول کرلیا ہے۔

لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اس مقصد کی خاطر اپنے عوام میں تحرک پیدا کیے بغیر سرگرم کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟

اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ حکومت نے بیرونی حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے کشمیر کاز کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے۔ بلاشبہ یہ حمایت نہایت اہمیت کی حامل ہے لیکن اسلام آباد بیرونی ریاستوں اور عالمی برادری کی رائے پر اثر انداز ہونے کی جو صلاحیت رکھتا ہے اس حوالے سے مبالغہ آرائی نہیں کی جاسکتی۔

تاہم اگر ریاست عالمی رائے کو کشمیریوں کی جانب سے اپنے بنیادی حقوق کے لیے جاری جدوجہد کے حق میں لانے کی کوششیں کرے تو یہ مجموعی حکمت عملی بھلے ہی نہ ہو لیکن مجموعی حکمت عملی کا بہترین حصہ ضرور ثابت ہوسکتی ہیں۔

اگرچہ امریکی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں زیرِ حراست افراد کی رہائی اور کشمیری عوام کی بنیادی آزادی کے احترام کا مطالبہ حوصلہ افزا ہے لیکن ہم یہ امید رکھنا چاہیں گے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کشمیر کو 5 اگست سے پہلے والی حیثیت میں بحالی کا مطالبہ بھی کردیں۔

سیکیورٹی کونسل میں طویل مطالعے کے رجحان کو بدلنا ہوگا۔ ان ریاستوں کی اصلاح کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے جو اس غلط فہمی میں متبلا ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔

علاوہ ازیں، کیا دنیا کو دیا جانے والا واضح ترین اور مؤثر پیغام صرف اور صرف حکومتی دانش کا متحمل ہوسکتا ہے؟ کیا اس پیغام میں عوامی رائے شامل کرتے ہوئے اسے مزید مضبوط و مؤثر نہیں بنانا چاہیے؟

ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ حکومت کشمیری کاز کو پاکستانی سماج کے شعور اور ان کی سرگرم حمایت کے بغیر آگے نہیں لے جاسکتی ہے۔ چنانچہ اسلام آباد کو تمام مقامی اتحادیوں میں تحریک پیدا کرنے پر بھی دھیان دینا ہوگا۔ تاہم، کوئی بھی اقدام اٹھانے سے قبل حکومت کی پالیسی کو تنقیدی طور پر جانچنے کی ضرورت ہے۔

وزیرِاعظم اور سرکاری عہدوں پر براجمان ان کے دیگر ساتھیوں نے عوام کے سامنے تقاریر کا ایک ناختم ہونے والے سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس میں وہ یا تو کشمیر کاز کے تحفظ کے حوالے سے اپنے کردار کو ادا کرنے کا عزم کررہے ہیں، یا پھر سری نگر اور مقبوضہ وادی کے مختلف حصوں میں زیادتیاں کرنے والوں پر الزام تراشیوں کی برسات کر رہے ہوتے ہیں۔ ماحول میں موجود زبردست گرم جوشی اور دلیری کا مظاہرہ نظر آ رہا ہے جو آگے کا راستہ سجھائے بغیر اس ملک کے لیے خطرات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

کشمیر معاملے پر پاکستان کے پاس کون سے آپشنز ہیں اور ان پر بہترین انداز میں عمل کس طرح کیا جاسکتا ہے اس پر تبادلہ خیال کے لیے عوام کو نہ صرف یہ کہ مدعو نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ٹھیک سے مطلع بھی نہیں کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت کو بندھے ہاتھوں کے ساتھ سنگین جنگ میں خود کو جھونکنے کی تجویز دی گئی ہے۔

مثلاً، وزیرِاعظم اور آرمی چیف اپنے اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ کشمیری عوام کے حقوق کو تحفظ دینے کی خاطر انتہائی حد تک جاسکتے ہیں۔ اگر تو انتہائی حد سے مراد لفظی جنگ اور سفارتی کوششیں ہیں تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن وزیرِاعظم تو ایک سے زائد مرتبہ بھارت کی جانب سے مسلح جارحیت اور / یا اشتعال انگیزی کے امکان کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی جانب سے مغربی سرحد پر تعینات فورسز کو بھارتی سرحد پر منتقل کرنے کے امکانات کی خبریں بھی میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

اب تو ڈی جی آئی ایس پی آر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کشمیری عوام کی خاطر آخری فوجی اہلکار اور آخری گولی تک لڑتا رہے گا۔ یہ دلیرانہ الفاظ ذہن میں باقاعدہ جنگ کے مناظر پیدا کردیتے ہیں۔ کیا لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ خود کو کسی بڑے پیمانے کے تنازع کے لیے تیار رکھیں؟

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کشمیری عوام کے حقوق کی حفاظت کی خاطر عوامی شرکت کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کی حد کیا ہوگی؟ دراصل عوام کی جانب سے ریلیاں نکالنا، فضا میں مُکے بلند کرنا اور دیگر طریقوں سے سرکاری بیانیے کا اظہار کرنا کافی نہیں، اس طرح کشمیر کاز میں محدود مدد ہی فراہم کی جاسکے گی۔

چونکہ نئی دہلی اپنی ہٹ دھرمی ختم کرتی نظر نہیں آرہی ہے اس لیے قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس حکمت عملی کے طویل المدتی نفاذ میں عوام کا سرگرم کردار ہونا لازمی ہے۔

اگر صورتحال اتنی ہی سنگین ہے جتنی سرکاری ترجمان ہمیں بتارہے ہیں تو ایسی صورتحال میں حکومت کے لیے قومی یکجہتی پیدا کرنا لازمی ہوجاتا ہے، وہی یکجہتی جو اکثر ریاستیں اس وقت پیدا کرتی ہیں جب انہیں غیرمعمولی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب ونسٹن چرچل نے نازی ازم سے لڑنے کا کام اپنے ذمے لیا تو انہوں نے ایٹلی، بیون، بیوان اور کرپس کو جنگی کابینہ میں اہم عہدے دیے، حالانکہ ان سب کا تعلق لیبر پارٹی سے تھا اور چرچل کو یہ افراد زہر لگتے تھے۔ ان افراد کی اچھی کارکردگی ان چند عناصر میں سے ایک تھی جس کے باعث ہی 1945ء کے انتخابات میں لیبر پارٹی نے چرچل کی ٹوری پارٹی کو شکست دی تھی۔

خیر پی ٹی آئی حکومت سے یہ کم ہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اپوزیشن ارکان کو شامل کرنے کے لیے تیار ہوگی، ظاہر ہے کہ اس طرح اس انسدادِ کرپشن مہم کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے جو پی ٹی آئی کے لیے اب بھی دکان چمکائے ہوئے ہے۔ تاہم پی ٹی آئی غیر سرکاری سطح پر تو عوامی اتحاد کے قیام کی کوششوں کا رسک ضرور اٹھا سکتی ہے۔

اس کام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت میڈیا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب اپنے رویے میں تبدیلی لائے کیونکہ یہ ذرائع ریاست اور شہریوں کے درمیان پُل کا کام انجام دے سکتے ہیں اور کشمیر کاز کی حمایت کے لیے قومی مہم کو جامع اور مؤثر بناسکتے ہیں۔

میڈیا کی بات کی جائے تو جس سنگین بحران نے اس کا جینا حرام کردیا ہے اس سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا ہے۔ صحافی آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے ڈرے ہوئے ہیں اور سرکاری مؤقف کو واحد سچ بتا کر خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

آزادئ اظہار کو قومی سلامتی کے مطالبات سے جوڑنے کے سبب ہی یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے، سچ تو یہ ہے کہ قومی سلامتی کو آزاد اور خودمختار میڈیا کے ذریعے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ملک کو ان میڈیا پرنسز کی تجاویز کی ضرورت ہے جنہوں نے کئی حکمرانوں کا عروج و زوال دیکھا ہے اور وہ موجودہ صورتحال کو معقول زوایہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف آزادئ اظہار کے احترام سے ہی میڈیا وہ سب رپورٹ کرسکے گا جو سب پڑھے لکھے اور صاحبِ شعور شہری حکومت تک پہنچانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

ٹھیک اسی طرح، اب وقت آچکا ہے کہ حکومت سول سوسائٹی کے اہم کردار کو سمجھے جو کشمیری عوام کی جدوجہد کی حمایت میں عوامی رائے کو متحرک کرنے میں بھرپور انداز میں ادا کرسکتی ہے۔ سرکاری ریکارڈ رکھنے والوں نے شاید یہ نوٹ کیا ہو کہ اسلام آباد کی ہِٹ لسٹ میں شامل ہیومن رائٹس واچ نامی بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے نے ہی مودی کی سیاست کو پاکستان کے کئی دیگر بیرونی دوستوں سے زیادہ واضح اور مؤثر انداز میں مذمت کی۔

سول سوسائٹی کی قومی پالیسیوں کی مناسب تشکیل اور ان کے نفاذ میں مدد کرنے اور اس کی نگرانی، تصحیح اور بہتری لانے کی صلاحیت پر اگر تھوڑا اعتماد بھی ظاہر کیا جائے تو اس سے کافی سودمند فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

جس لڑائی میں حکومت کُود چکی ہے اس میں اگر میڈیا اور سول سوسائٹی کی مناسب شمولیت نہ ہوئی تو قومی مہم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔


یہ مضمون 22 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

عبدالملک Aug 24, 2019 01:11pm
امریکہ افغانستان سے نکل رہی ہیں مگر کشمیر......................؟
Talha Aug 25, 2019 10:31am
9/11 keh baad kiya ham aur kiya hammariee auqaat.....