حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے سر پر کبھی چھت تھی، حسبِ قانون گیس و بجلی کے میٹر ان کے گھروں پر لگے ہوئے تھے۔ باقاعدہ ڈاک پتے تھے اور ووٹنگ فہرست میں ان کے نام درج تھے۔
دوسری طرف، سپریم کورٹ کے حکم کے تحت گھر کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق کسی قسم کے پلان پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور مکانات گرانے کا عمل ہدف کے حصول سے پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔
9 اگست کو سماعت کے دوران محکمہ ریلوے نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کے سی آر منصوبہ قابلِ عمل نہیں رہا اور محکمہ ریلوے کے لیے اس پر عمل کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ چنانچہ مکانات گرانے کی اب کسی بھی قسم کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔
اب ایسی صورت میں متاثرین کی مشکلات کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر گھرانے کے سربراہ کو ایک دستاویز دی جائے، جس میں اس کا نام اور اس کے گرائے جانے والے مکان کا پتہ درج ہو اور اس میں یہ بھی لکھا ہو کہ یہ شخص معاوضے یا دوسری جگہ پر منتقل کیے جانے کا حق رکھتا ہے۔ جس کے بعد وہ گھرانے اطمینان کے ساتھ ملبے پر رہائش ترک کرکے کسی دوسری جگہ کرائے پر جگہ لینے یا کسی رشتہ دار کے ہاں منتقل ہونے کے انتظامات کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ بے گھر ہونے والے گھرانوں کے لیے جلد از جلد بحالی پلان مرتب کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کے پاس رہنے کے لیے جگہ دستیاب ہو۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ریلوے کی زمینوں پر ریلوے کالونی، صنعتوں، گوداموں اور تجارتی عمارتوں کی صورت میں بھی قبضے موجود ہیں۔ کیا وہ انہیں بھی گرادیں گے؟
تاحال ایسے کسی پلان کا کہیں کوئی وجود نہیں ملتا۔ اگر ریلوے کی زمین پر قبضے ختم کروانے ہوں تو اب بھی 3 ہزار 534 مکانات کو گرانے کی ضرورت پڑے گی۔ ان مکانات میں رہائش پذیر گھرانوں کی بحالی کے سارے انتظامات مکمل کرنے کے بعد ہی ان مکانات کو گرانے کا عمل شروع کیا جائے تاکہ مستقبل میں موجودہ صورتحال جیسے حالات سے بچا جاسکے۔
اور ان 20 سے 30 ہزار مکانات کا کیا جو کے سی آر کی زمینوں سے متصل ہیں؟ ان بستیوں کو بھی کچی آبادیاں قرار دے کر قانونی حیثیت میں لانے کی ضرورت ہے۔