لکھاری آرکیٹیکٹ ہیں۔
لکھاری آرکیٹیکٹ ہیں۔

یہ 9 مئی کی بات ہے جب سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پاکستان ریلوے 15 دنوں کے اندر کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) سے ’تجاوزات‘ ہٹائے اور پھر حکومتِ سندھ ایک ماہ کے اندر کے سی آر کو فعال بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ وزیرِاعلیٰ سندھ، میئر کراچی، چیف سیکرٹری سندھ، کمشنر کراچی اور ریلوے وقت پر کے سی آر کی بحالی کو طے شدہ تاریخ تک یقینی بنائیں اور اس کام کے لیے وہ وفاقی حکومت کے پلاننگ ڈویژن سے کسی بھی طریقے کی مدد حاصل کرسکیں گے۔

ریلوے کے نمائندے جنہوں نے اس بحالی کی تاریخ کی تجویز دی تھی، انہوں نے سپریم کورٹ کو بحالی کے منصوبے کی وقت پر تکمیل کی یاددہانی کروائی۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں مزید یہ بھی کہا کہ جن لوگوں سے بھی گھر خالی کروائے جائیں ان کے لیے ایک برس کے اندر اندر مناسب رہائشی سہولیات فراہم کی جانی چائیں۔

تاہم، ان تمام وعدوں کو پورا کرنا ریلوے کے لیے واضح طور پر ممکن نہیں تھا۔ محکمہ ریلوے کے پاس یہ سکت ہی نہیں تھی کہ وہ محض 2 ہفتوں کے اندر ریلوے پٹری کے دونوں اطراف 50 فٹ (15 میٹر) جگہ پر بنے 4 ہزار 653 مکانات کو گرا سکے۔

اس کے علاوہ وہ ریلوے کو فعال بھی نہیں بنا سکتے تھے جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ گرین لائن بی آر ٹی راہداری ریلوے پٹری کے بیچ سے گزر رہی تھی لہٰذا محکمہ ریلوے کو یہ لائن فعال بنانے کے لیے انڈر پاس یا پل درکار تھا، جس کی تعمیر میں کم از کم بھی ایک سال کا وقت لگتا۔

تاہم، طے شدہ تاریخ کے مطابق 14ویں رمضان کو جب کراچی میں گرمی کی لہر عروج پر تھی تب مکانات گرانے کا عمل شروع ہوگیا۔ اس دوران 4 ہزار 653 مکانات میں سے 1 ہزار 119 مکانات کو ڈھادیا گیا مگر، آج ڈھائی ماہ گزر جانے کے بعد بھی لوگ گزشتہ گھر کے ملبے پر کھلے آسمان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے اگر انہوں نے اپنے مکانات خالی کیے تو وہ ریلوے حکام کے لیے اجنبی بن جائیں گے اور یوں وہ ریاست کی جانب سے کسی بھی شکل میں دیے جانے والے معاوضے کو حاصل کرنے کا حق کھو دیں گے جن کا وعدہ ریاست ان سے کرسکتی ہے۔

یوں ملبے پر زندگی گزارنا مشکل ترین کام بن چکا ہے کیونکہ ریلوے پولیس نے پانی، بجلی اور گیس کے کنیکشن کاٹ دیے ہیں۔ نتیجتاً انہیں پانی خریدنا پڑتا ہے اور کھانا لکڑیوں پر پکانا پڑتا ہے۔ پھر نہ بچے اسکول جاپاتے اور نہ خواتین کام پر۔ وہاں نہ لیٹرین کا کوئی انتظام ہے اور نہ انسانی فضلے کی صفائی کا کوئی بندوبست موجود ہے۔ جب لیٹرین جانے کے لیے کسی طور پر پردے کا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی تو ریلوے پولیس نے انہیں ایسا کرنے سے بھی روک دیا۔ یہی نہیں بلکہ خواتین کی جانب سے یہ شکایات بھی آئی ہیں کہ پولیس اہلکار ان سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں مرد بھی باقاعدگی سے اپنے کام پر نہیں جا پارہے، جس کے سبب آمدنی میں کمی ہوئی ہے اور گرمی اور جسم میں پانی کی کمی کے باعث بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔

حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے سر پر کبھی چھت تھی، حسبِ قانون گیس و بجلی کے میٹر ان کے گھروں پر لگے ہوئے تھے۔ باقاعدہ ڈاک پتے تھے اور ووٹنگ فہرست میں ان کے نام درج تھے۔

دوسری طرف، سپریم کورٹ کے حکم کے تحت گھر کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق کسی قسم کے پلان پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور مکانات گرانے کا عمل ہدف کے حصول سے پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔

9 اگست کو سماعت کے دوران محکمہ ریلوے نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کے سی آر منصوبہ قابلِ عمل نہیں رہا اور محکمہ ریلوے کے لیے اس پر عمل کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ چنانچہ مکانات گرانے کی اب کسی بھی قسم کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔

اب ایسی صورت میں متاثرین کی مشکلات کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر گھرانے کے سربراہ کو ایک دستاویز دی جائے، جس میں اس کا نام اور اس کے گرائے جانے والے مکان کا پتہ درج ہو اور اس میں یہ بھی لکھا ہو کہ یہ شخص معاوضے یا دوسری جگہ پر منتقل کیے جانے کا حق رکھتا ہے۔ جس کے بعد وہ گھرانے اطمینان کے ساتھ ملبے پر رہائش ترک کرکے کسی دوسری جگہ کرائے پر جگہ لینے یا کسی رشتہ دار کے ہاں منتقل ہونے کے انتظامات کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ بے گھر ہونے والے گھرانوں کے لیے جلد از جلد بحالی پلان مرتب کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کے پاس رہنے کے لیے جگہ دستیاب ہو۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ریلوے کی زمینوں پر ریلوے کالونی، صنعتوں، گوداموں اور تجارتی عمارتوں کی صورت میں بھی قبضے موجود ہیں۔ کیا وہ انہیں بھی گرادیں گے؟

تاحال ایسے کسی پلان کا کہیں کوئی وجود نہیں ملتا۔ اگر ریلوے کی زمین پر قبضے ختم کروانے ہوں تو اب بھی 3 ہزار 534 مکانات کو گرانے کی ضرورت پڑے گی۔ ان مکانات میں رہائش پذیر گھرانوں کی بحالی کے سارے انتظامات مکمل کرنے کے بعد ہی ان مکانات کو گرانے کا عمل شروع کیا جائے تاکہ مستقبل میں موجودہ صورتحال جیسے حالات سے بچا جاسکے۔

اور ان 20 سے 30 ہزار مکانات کا کیا جو کے سی آر کی زمینوں سے متصل ہیں؟ ان بستیوں کو بھی کچی آبادیاں قرار دے کر قانونی حیثیت میں لانے کی ضرورت ہے۔

گرائے جاچکے 1 ہزار 119 گھروں کی بحالی کے لیے 24 ایکڑ پر محیط زمین درکار ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ ان کے نئے گھروں کو ان کے اصل گھروں کے 2 کلومیٹر کے فاصلے کے اندر تعمیر کیا جائے تاکہ ان کے لیے سماجی تعلقات، کام کی جگہیں اور بچوں کے اسکولوں تک رسائی آسان ہوسکے۔ ایک سے دوسری جگہ منتقلی کا یہ منصوبہ وزیرِاعظم ہاؤسنگ پروگرام کے لیے ایک ماڈل کے طور استعمال کیا جاسکتا ہے۔

لیکن پھر سوال یہ آتا ہے کہ بحالی کے اس عمل کو انجام کون دے گا؟ کیونکہ تاحال مقامی، صوبائی یا وفاقی حکومتوں میں سے کسی نے بھی اس جانب دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جبکہ تباہ حال علاقوں میں شرمناک حالات جوں کے توں ہیں۔

اس پورے سلسلے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سرکاری محکمے حقیقی صورتحال سے آگاہ ہی نہیں ہوتے اور وہ غلط اندازوں پر اپنے فیصلہ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس شہر کے لوگوں کو مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔


یہ مضمون 25 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Aug 27, 2019 06:13pm
عارف حسن صاحب آپ کی تحریر پڑھ کر رونا آتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کشمیر پر تو خوب بڑھ چڑھ کر بولا جارہا ہے لیکن اس قسم کی حماقتیں کرتے وقت کچھ سوچا نہیں جا رہا ہے۔ ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح رہتے ہوئے ہم کوئی ترقی کر پائیں گے۔