رہے مصطفیٰ کمال، تو ان کا مسئلہ سیاست سے زیادہ فراغت ہے۔ انہوں نے پاک سرزمین پارٹی تو بنالی، لیکن ‘شاد باد‘ نہ ہوسکے، کیونکہ ‘قوت اخوت عوام’ میسر نہ ہونے کے باعث منتخب ایوانوں سے باہر ہی رہے، چنانچہ خود کو ‘رہبر ترقی و کمال‘ ثابت کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکا، حالانکہ ’مرکزِ یقین‘ پر انہیں پورا یقین تھا مگر ‘پاک سرزمین کا نظام’ ان کے لیے جگہ نہ بنا سکا۔ اب وہ کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں۔ وسیم اختر کی پیشکش کی صورت میں ایک اچھا موقع ہاتھ آیا تھا مگر میئر کراچی نے ہاتھ بڑھا کر پیچھے ہٹا لیا۔
مصطفیٰ کمال صاحب کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ کچرے کو چھوڑیں، مکھیوں پر توجہ دیں جنہوں نے کراچی پر یلغار کردی ہے۔ کیا دور تھا جب کراچی میں ان لوگوں کو اقتدار حاصل تھا جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، پھر انہوں نے اپنے قائد کو ہی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا اور اب یہ زمانہ ہے کہ ہر ناک پر مکھی بیٹھی ہے۔
اس صورتحال میں اگر مصطفیٰ کمال مکھی مار مہم چلائیں تو انہیں مصروفیت اور شہریوں کو مکھیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ یہاں ہم واضح کردیں کہ مکھی مارنا بہت آسان ہے، اس کے لیے نہ گولی کی ضرورت پڑتی ہے نہ بوری کی، اس کے قتل کے لیے ہاتھ، کتاب، اخبار سمیت کچھ بھی ہتھیار کا کام کرسکتا ہے۔
آخری بات یہ کہ مکھی مار مہم چلاتے ہوئے انہیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ کراچی کے فارغ ہیں اگر ‘لندن کے فارغ’ ہوتے تو ڈینگیں ہی مار سکتے تھے کہ وہاں مکھیاں میسر نہ آتیں۔
یہ ایک طنزیہ تحریر ہے۔