اگرچہ اس موضوع پر مقتدرین کو یہ سمجھانا شاید ضروری ہے کہ بھلے ہی ایک ایسا احتسابی عمل موجود ہو جو کرپٹ کو پکڑنے اور انہیں سزا دینے پر ہمہ تن متوجہ ہو تو بھی وہ کرپشن کے متعدد سروں والی عفریت کو زیر کرنے میں آدھے سے بھی کم حد تک مؤثر ثابت ہوگا۔ اتنی ہی ضرورت کرپشن کی روک تھام کی ہے، اگر مناسب سمجھا جائے تو۔ اگر کوئی شخص اس طریقہ فکر پر چل رہا ہے تو وہ اقوام متحدہ کے کنوینشن برائے انسدادِ بدعنوانی کی مدد سے مناسب ہدایات حاصل کرلے گا۔
کنوینشن کا دوسرا باب مکمل طور پر انسدادی اقدامات کے بارے میں ہے۔ اس کے آرٹیکل 5 انسدادِ بدعنوانی کی انسدادی پالیسیوں اور عوامل کا مطالبہ کرتا ہے اور ہر فریق کو ریاست سے انسداد بدعنوانی سے متعلق ایسی مؤثر اور مربوط پالیسیاں ترتیب دینے اور ان کے نفاذ کا تقاضا کرتا ہے جن سے معاشرے کی شراکت داری کو فروغ ملتا ہو اور قانون کی حکمرانی، عوامی معاملات اور املاک کی مناسب منیجمنٹ، سالمیت، شفافیت اور احتساب کے اصول منعکس ہوتے ہوں۔
6 تا 14 آرٹیکل انسدادی باڈیز برائے انسدادِ بدعنوانی کی تشکیل، ’سول سرونٹس کی بھرتی، انہیں نوکری پر رکھنے، عہدوں پر فائز رکھنے، ترقیاں دینے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے لیے مضبوط نظام کو بحال رکھنا‘، سرکاری عہدے رکھنے والوں کے لیے ضابطہ اخلاق، پبلک پروکیورمنٹ اور پبلک فنانس، حکومتی اعداد و شمار تک عوامی رسائی، عدالتی اور استغاثہ کی خدمات، نجی شعبہ، سماجی شراکت داری اور منی لانڈرنگ کے انسدادی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔
ریاستی ادارے مندرجہ بالا مطالبات سے واقف ہیں، لیکن ریاستی ادارے برسوں سے بدانتظامی اور اپنے متروکہ ہدایت ناموں پر عمل پیرا رہنے کی وجہ سے فرسودگی کا شکار بن چکے ہیں۔
ریاست مسلسل اس حقیقت سے نظریں چراتی رہی ہے کہ کرپشن کی جڑیں ریاست کی جانب سے اپنی من مرضی اور غیر آئینی طریقہ کار کے ساتھ نظام چلانے، ریاست کی سماج کے چند حصوں کے ساتھ کسی ایک یا متعدد جگہوں پر ظاہری اور باطنی امتیاز برتنے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو قانون اور اس کے تحت حاصل ہونے والے تحفظ کے آگے برابر نہ ٹھہرانے کے رجحان میں موجود ہیں۔
ایک ایسے معاشرے میں کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے جس کی نمایاں صفت عدم مساوات ہو۔
یہ مضمون 29 اگست 2019ء کو شائع ہوا۔