کشمیر معاملے پر بھارت کو مذاکراتی ٹیبل پر کس طرح لایا جاسکتا ہے؟


جموں و کشمیر کے الحاق سے متعلق مودی کی جانب سے اٹھائے گئے اچانک اور غیر قانونی اقدام نے پاکستان، کشمیری عوام، بھارت کے ’سیکولر حلقوں‘ اور عالمی برادری پر حقیقت اجاگر کردی ہے۔
پاکستان میں جو حضرات یہ مانتے تھے کہ جموں و کشمیر پر سمجھوتے سے بھارتی دشمنی کا خاتمہ ہوگا اور تعاون کو فروغ ملے گا، اس اقدام نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔
اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ مودی اور ان کی بی جے پی-آر ایس ایس پر مشتمل گروہ کے لیے کشمیر کا (آبادیاتی تبدیلی کے ذریعے) ’آخری حل‘ اور پاکستان کے لیے دشمنی محض انتخابی چالیں نہیں تھیں بلکہ یہ اس ہندو انڈیا کے مخصوص مذہبی بالادستی کے حامی نظریے کا حصہ تھے جسے بے رحمی سے مسلط کیا جانا ہے۔
پاکستان کو پہلے ہی اس بدصورت حقیقت کے مطابق اپنی سمت کا تعین کرلینا چاہیے تھا۔ وزیرِاعظم عمران خان مانتے ہیں کہ ان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت اور گزشتہ فروری کی فوجی کارروائیوں کے تبادلے کے دوران پاکستان کے مزید کارروائی نہ کرنے کے اقدام کو مودی کمزوری اور خوشامد کی علامات سمجھ بیٹھے تھے۔ لہٰذا اب انہوں نے یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے ’سفیر‘ کے طور پر کشمیر کاز کے حوالے سے عالمی سطح پر آواز اٹھائیں گے۔
پاکستان کا ابتدائی ردِعمل حسبِ معیار تھا: سفیروں کو واپس بلوانا، تجارتی تعلقات ترک کرنا اور اقوام متحدہ اور انسانی حقوق سے منسلک تنظیموں سے رجوع کرنا۔
لیکن مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اٹھانا واقعی ایک غیر معمولی اقدام تھا۔
50 برسوں کے وقفے کے بعد اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جموں و کشمیر پر ہونے والی ’غیر رسمی مشاورت‘ پر تمام 15 اراکین کا اتفاق پاکستان کے لیے ایک واضح سفارتی فتح کو ظاہر کرتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ اس بات کی بھی توثیق کرتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور یہ بھارت کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ کونسل مسئلہ کشمیر پر بھرپور انداز میں نظر رکھے ہوئے ہے اور مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کا بغور جائزہ لے گی۔
اقوامِ متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں (سوائے پاکستانی تنظیموں کے، جو بڑی حیرانی کی بات ہے) کی جانب سے کشمیر میں بھارت کے نافذ کردہ 24 گھنٹے کے کرفیو، مواصلاتی اور نیوز بلیک آؤٹ، غیر قانونی گرفتاریوں اور مظاہرین کو دبانے کے لیے پُرتشدد اور مہلک طریقہ کار کے استعمال پر گہرے سنجیدہ خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اسلام آباد نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ ستمبر کی ابتدا میں جینیوا میں منعقد ہونے والے انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھائیں گے۔
وزیرِاعظم عمران خان نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے (اطلاعات کے مطابق 27 ستمبر کو) اپنے خطاب اور دیگر سربراہانِ ریاست و حکومت کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں کشمیر کاز پر بھرپور انداز میں بات کریں گے۔
افسوس کے ساتھ، جہاں بھارت کا نام نہاد آزاد میڈیا مودی کے کشمیر کے الحاق کے غیر قانونی اقدام کی حمایت میں پیش پیش ہے اور کشمیر میں ہو رہے بڑے پیمانے پر مظالم کو چھپانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا، وہیں پاکستانی میڈیا کے کچھ حلقوں نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بنائی گئی کشمیر پالیسی کی تیاری اور بیرونی حمایت کے حصول میں مبیّنہ ناکامیوں پر بغیر یہ سوچے سمجھے تنقید شروع کردی ہے کہ ان کی تنقید سے مظلوم کشمیریوں کے مورال پر کیا کچھ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کو انہیں روکنے کے لیے متحرک ہونا ہی پڑے گا۔