سیکیورٹی کونسل اور عالمی برادری کے لیے کشمیر تنازع میں مداخلت اور اس کا حل ناگزیر بنانے کا دار و مدار بھارتی دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود کشمیر کاز پر اپنے مؤقف کو فروغ دینے میں پاکستان کی مستقل مزاجی اور اس سے بھی بڑھ کر کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے ابھار اور طاقت پر ہے۔
اگر کشمیر میں نسلی صفائی اور نسل کشی ہوتی ہے یا پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کے ایک اور جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہوجاتا ہے تو دنیا اس تنازع میں ضرور مداخلت کرے گی۔
اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ مودی کی جانب سے کشمیر کی شناخت اور خودمختاری کو ختم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے پاس مزاحمت کے سوائے اور کوئی آپشن نہیں ہے۔
کشمیریوں کے درمیان اب یہی عالمگیر جذبہ بیدار رہے گا۔ چند ایسے بھی ہوں گے جو یا تو غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں گے یا پھر بھارت کے شریک کار ہوں گے۔ اس کے علاوہ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد مسلح مزاحمت کی حامی بھی ہوسکتی ہے۔ یوں حریت کی سیاسی قیادت کے بجائے مسلح تنظمیں، بالخصوص حزب المجاہدین جیسے مقامی گروہ ایک نئی جدوجہد کی قیادت کریں گے۔
پاکستان کو کشمیری جدوجہد آزادی پر واضح اور سیاسی طور پر قابلِ دفاع مؤقف اپنانا ہوگا جو ایک طرف بین الاقوامی قوانین اور متعدد اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر اس جدوجہد کی جائز حیثیت کو فروغ دیتا ہو۔ دوسری طرف اسلام آباد کو کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے خود کو دُور رکھنا ہوگا جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں متوقع تصادم کا حصہ بن سکتی ہیں۔
اگر بھارت کو کشمیری بغاوت، اپنے عزم پر ڈٹے ہوئے پاکستان، بین الاقوامی دباؤ اور کمزور معیشت کا سامنا ہوا تو یہ شاید پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ باہمی طور پر قابلِ قبول حل کے لیے مذاکرات کی حامی بھر سکتا ہے۔ مگر ہندو فاشسٹ شاید سمجھوتے کی راہ نہ لیں۔ مقبوضہ کشمیر میں خونریزی سے یہ پاکستان کے ساتھ ایک اور جنگ کو دعوت دے رہے ہیں جو جنوبی ایشیا اور دنیا کے ایک بڑے حصے کو تباہی کے دہانے پر لانے کے مترادف ہے۔
بین الاقوامی برادری کو انہیں روکنے کے لیے متحرک ہونا ہی پڑے گا۔
یہ مضمون یکم ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شایع ہوا۔