لڑکی والوں نے بھی فوراً ہاں کہہ دی تھی۔
ایک ماہ بعد اس کی شادی کی تاریخ طے پائی، اس عرصے کے دوران بھی وہ رات بھر سڑک پر پھرتا رہتا تھا۔
خالی بستر اور تنہا مکان سے زیادہ اداس کچھ بھی نہیں ہوتا، سو وہ سڑک کی جانب دوڑتا۔
‘بس ایک ہی مہینہ ہے پھر یہ ساری وحشت ختم ہوجائے گی، مجھے دراصل کسی کی محبت کی ضرورت ہے، وہ آئے گی تو کمرے میں اتنی تنہائی نہیں رہے گی’، وہ سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے ساری رات یہی سوچتا رہتا۔
اور آج جب وہ شادی کی پہلی رات کمرے میں داخل ہوا تو مدت بعد تنہائی اور اداسی نے اس کا دامن نہ پکڑا۔ وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔ اس نے سوچا واقعی یہی کمی تھی جو آج پوری ہوئی ہے۔
‘آپ ٹھیک ہیں’، اس نے بات کا آغاز کیا۔
‘جی ٹھیک ہوں’، جواب ملا۔
‘آج ہم نے زندگی کے نئے سفر کا آغاز کیا ہے، میں کوشش کروں گا کہ آپ کو یہاں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ابھی اس گھر کی ساری سیٹنگ میں نے اپنی مرضی سے کر رکھی ہے، چیزیں بہت بے ترتیب ہیں بالکل میری طرح لیکن اب چونکہ آپ آگئی ہیں تو جو چاہیں جیسا چاہیں کرلیجیے گا’، اس نے کہا۔
‘مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے’۔
‘ہاں ہاں کہیے، اس میں بھلا اجازت کی کیا بات ہے’، مدت بعد اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا۔
‘دیکھیں! مجھے آپ سے محبت نہیں ہے’، اس کی بیوی نے کہا۔
پہلے پہل اسے لگا کہ یہ آواز کہیں اس کے اندر سے آئی ہے، اس نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا پھر گریبان میں جھانکا۔ یہ آواز کہاں سے آئی تھی؟ جب اسے اس بات کا یقین ہوگیا کہ جس بات کا وہ یقین نہیں کرنا چاہتا تھا کہ یہ آواز سامنے سے آئی ہے تو اس نے گھبرا کر آہستہ سے کہا ‘لیکن میں تو آپ کا شوہر ہوں’۔
‘اس سے کیا ہوتا ہے، محبت نہ ہو تو کچھ نہیں ہوتا’، اس کی بیوی نے کہا۔
اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی جواری زندگی کی بازی میں آخری پتا بھی غلط پھینک بیٹھا ہو۔ لیکن آخری چند سانسیں مستعار لینے کی خاطر اس نے پوچھا ‘کیا تم کچھ دن کے لیے مجھ سے محبت کرسکتی ہو؟ دراصل ایک عجیب سی اداسی نے مجھ کو گھیر رکھا ہے اور میں اس سے بے حد خوف زدہ ہوں، کافی مدت کے بعد آج پہلی بار میں اس کیفیت سے آزاد ہوا تھا، تم بے شک مجھ سے جھوٹی محبت کرلو’۔
‘محبت ایسے تھوڑی ہوتی ہے’، اس کی بیوی نے جواب دیا۔
‘تو تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟’، یہ پوچھتے ہوئے اس کی آواز میں دنیا جہان کا دکھ تھا۔
‘یہ شادی تو میں نے گھر والوں کے دباؤ میں آکر کی ہے، میں جس سے محبت کرتی ہوں وہ دبئی میں نوکری کرنے گیا ہے لیکن وہ ضرور واپس آئے گا۔ پھر ہم دونوں ایک نیا سفر شروع کریں گے، آپ چاہیں تو مجھے طلاق بھی دے سکتے ہیں، میں نے اپنے محبوب کو سب کچھ بتا دیا ہے اسے کوئی اعتراض نہیں۔ یہی سچی محبت کی نشانی ہے’۔
وہ جو اپنے گھر کا سب سے بڑا تھا، جس نے سب ذمہ داریاں اٹھائی تھیں اور جس نے 40 سال اپنے بارے کچھ نہیں سوچا تھا، کسی بچے کی طرح روتے ہوئے گھر سے باہر نکل آیا تھا۔
پھر اس نے سڑک پر رہنا شروع کردیا۔ اس کی بہنیں آئیں اور اسے سمجھایا کہ وہ گھر لوٹ آئے لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ گاؤں کے لوگ آتے اس سے بات کرتے لیکن وہ کسی بھی بات کا جواب نہ دیتا۔ سارا دن سڑک پر بیٹھا رہتا اور رات کو چلنا شروع کردیتا۔
اس کی بیوی نے گاؤں والوں کو بتایا کہ شادی کی پہلی رات وہ عجیب وغریب باتیں کررہا تھا کہ اس کو کسی اداسی نے گھیر رکھا ہے، سو اسے اس دیوانگی کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ گاؤں کے لوگ اس کو روٹی دے دیتے تھے وہ چپ چاپ کھا لیتا اور سڑک کنارے پڑا رہتا۔ بارشیں آئیں وہ وہیں رہا، جون جولائی کی دوپہریں بھی اسے اپنی جگہ سے نہ ہلاسکیں۔ انہی دنوں اس کی بیوی ایک نوجوان کے ساتھ اس کے پاس آئی۔ وہ سڑک کنارے ایک درخت کے نیچے سرجھکائے بیٹھا تھا۔
‘اِدھر آؤ، یہ کچھ نہیں کہتا’، اس کی بیوی نے نوجوان سے کہا جو کافی فاصلے پر ہی ڈرا ہوا کھڑا تھا۔
‘سنیے! یہ راشد ہے، دبئی سے لوٹ آیا ہے، میں نے آپ کو اس کے بارے بتایا تھا نا، یہ وہی ہے۔ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے بہت محبت ہے، وہ آپ مجھے طلاق دے دیں گے نا؟’