نیچے میرے پاس کوئی کام نہیں تھا سو میں چھت پر آگیا۔ میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک لگاتار گھومتا رہا اورآخر اُکتا گیا۔

میں اس شہر میں بالکل ہی اجنبی تھا اتنا کہ مجھے یہاں کی زبان بھی نہیں آتی تھی۔ میں نے گلی سے باہر دیکھا تو کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں نے سوچا کہ زور سے چیخوں، اتنا زور سے کہ آواز سارے شہر میں پھیل جائے لیکن میں نہیں چیخا۔

بھلا ان لوگوں کو میری بات کیسے سمجھ آسکتی تھی۔ یہ کیا سمجھیں گے کہ میں کون ہوں اور کیوں چیخ رہا ہوں؟ میں تو اس شہر میں اجنبی ہوں جس کی زبان یہاں کوئی بھی نہیں سمجھتا۔

میں نے پھر گلی میں جھانک کر دیکھا تو مجھے کچھ لوگ نظر آئے جو بہت تیزی سے گزر رہے تھے۔ ان کی شکل، بال اور ان کا سُرخ لباس بالکل میرے جیسا تھا۔

’یہ تو میرے ہی قبیلے کے لوگ ہیں، یہ ضرور میری بات سمجھیں گے‘، میں دوڑ کر گلی میں آیا لیکن وہ اتنی دُور نکل گئے کہ میں انہیں پکارتا بھی تو ان تک میری آواز نہ پہنچتی، لیکن میں نے پھر بھی انہیں بہت پکارا۔

’رُکو میری بات سنو، مجھے کچھ کہنا ہے، اگر جانا ہی ہے تو مجھے بھی ساتھ لے کر جاؤ، میں یہاں خاموش رہ رہ کر اُکتا گیا ہوں، کوئی بھی میری بات نہیں سمجھتا۔‘

لیکن وہ لوگ آگے نکل گئے اور انہوں نے پیچھے مُڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

میں وہیں گلی کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔

ایک گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی اور معلوم نہیں کونسی زبان میں مجھے وہ گاڑی والا بُرا بھلا کہنے لگا، وہ شاید مجھے راستے سے ہٹ جانے کا کہہ رہا تھا۔

میں نے آنسوؤں سے تر چہرہ اوپر اٹھایا کہ شاید وہ میرے آنسو دیکھ کر میری پریشانی سمجھ پائے لیکن اس نے میرے آنسوؤں کی ذرا پروا نہ کی کہ جیسے یہ آنسو فقط پانی ہوں اور لگاتار مجھے بُرا بھلا کہتا رہا۔

آہ! یہ کتنا عجیب شہر تھا کہ یہاں محبت اور ہمدردی کا شدید قحط تھا، لوگ آنسوؤں کو یکسر نظر انداز کردیتے تھے اور جہاں آنسو نظر انداز کردیے جائیں وہاں قہقہے کھوکھلے ہوجاتے ہیں اور محبت کبھی بھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔

میں اسی طرح روتے روتے سڑک پر آگیا اور سڑک کنارے فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔ سارے لوگ اجنبی تھے، ان میں سے کوئی بھی میری جانب متوجہ نہیں تھا۔

میں اسی طرح روتا رہا جیسے میں گلی میں رو رہا تھا۔ کبھی میری آواز تیز ہوجاتی تو کبھی میں سسکیاں لیکر روتا لیکن پاس گزرتے کسی شخص نے بھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ میں کیوں رو رہا ہوں۔ شاید اس شہر میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں تھی، سب اپنی دھن میں دوڑے جارہے تھے اور آپس میں اپنی زبان میں باتیں کررہے تھے لیکن ان کی باتیں جذبوں سے خالی تھیں۔ اِرد گرد کھانے پینے کی دکانیں تھیں جن میں فاختائیں لٹک رہی تھیں۔ دکاندار فاختاؤں کو ذبح کرتے تو لوگ تالیاں بجا کر انہیں داد دیتے۔

’یہ کیا کررہے ہو، ان فاختاؤں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟‘، میں زور سے چیخا لیکن تالیاں بدستور جاری رہیں سو میں آگے بڑھ گیا۔

سڑک کنارے ایک ہسپتال تھا کہ جس کے شیشوں سے اندر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ مریض جن کے سروں پر سونے کا تاج تھا، آرام دہ بستروں پر لیٹے ہوئے تھے اور ان کے گرد ڈاکٹروں کا ہجوم تھا۔ خدمت گزار انہیں قیمتی برتنوں میں خوراک پیش کررہے تھے۔ وہیں ایک کونے میں فرش پر کچھ لاغر مریضوں کا ڈھیر لگا تھا کہ جن پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں اور وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ پاس گزرنے والے منہ پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔

اتنے میں شور بلند ہوا۔

سپاہی کوئی اعلان کرتے ہوئے گزرے۔ وہ لوگوں کو سڑک کے اطراف کھڑا کرنے لگے، تھوڑی دیر بعد ملک کا حکمران اور اس کے قریبی ساتھیوں کی بگھیاں گزرنے لگیں۔

سب ایک طرف ہوکر کھڑے ہوگئے اور حکمران کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اندھا دھند آنکھیں بند کیے حکمران کے حق میں نعرے لگائے جارہے تھے۔

سپاہی سڑک کنارے نعرے لگاتے لوگوں پر تھوکیں پھینکتے ہوئے گزر رہے تھے لیکن لوگوں کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔

نعرے۔ بغیر جذبے کے خوشی کے نعرے۔

میں حیران تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ اس ظلم اور رسوائی پر احتجاج کیوں نہیں کرتے؟

جب گاڑیاں میرے پاس سے گزریں تو ان لوگوں نے چند تھوکیں میرے اوپر بھی پھینک دیں۔ میں چیخنے، چلانے لگا اور انہیں بہت بُرا بھلا کہا۔

میں اس ہجوم میں اکیلا شور مچانے والا تھا۔ اِرد گرد کھڑے لوگوں نے مجھے حیرت سے دیکھا، کیونکہ یہ پہلی صدا تھی جو اس ہجوم میں بلند ہوئی تھی۔

سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا اور اس شہر کے قاضی کے پاس لے گئے۔

اس قاضی کو میری اور مجھے اس کی کوئی بھی بات سمجھ نہ آسکی۔ میں لگاتار کہتا رہا کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے لیکن قاضی مجھے غصے سے دیکھتا رہا اور اس کپ میں چائے پیتا رہتا جس پر حکمران کی تصویر بنی ہوئی تھی۔

ہم دونوں کی زبانیں مختلف تھیں، میں نے قاضی کو اشاروں کی مدد سے بہتیرا سمجھایا کہ میں بے قصور ہوں میں نے صرف اپنے حق کی خاطر صدا بلند کی تھی سو میری سزا معاف کی جائے لیکن قاضی میرے کسی اشارے کو نہ سمجھ سکا۔

میں روز آتا اپنے بے قصور ہونے کی داستان دہراتا لیکن بے سود۔ پھر میں ایک لمبے عرصے تک یہ اشارہ کرتا رہا کہ مجھے ترجمان مہیا کیا جائے تاکہ وہ میری بات قاضی کو سمجھا سکے۔ مدت بعد قاضی کو میرا یہ اشارہ سمجھ آگیا اور اس نے مجھے اشاروں کی مدد سے بتایا کہ میرے لیے ترجمان ڈھونڈا جائے گا، مگر تب تک مجھے جیل میں رہنا ہوگا۔

مجھے ایک اندھیر کوٹھڑی میں بند کردیا گیا جس میں، مَیں بیٹھ تو سکتا تھا لیکن پوری طرح لیٹنا ممکن نہیں تھا۔ مجھے اکڑوں ہوکر سونا پڑتا تھا اور وہاں سونے اور سوچنے کے سوا کوئی کام بھی نہیں تھا۔

دن مہینوں اور مہینوں سالوں میں ڈھل گئے لیکن مجھے ابھی تک کوئی ہم زبان نہیں ملا۔ اس کوٹھڑی میں رہتے رہتے میرے بازو اور ٹانگیں ٹیڑھی ہوگئیں ہیں۔ روز میں کھانا لانے والے سپاہی سے اشاروں میں پوچھتا ہوں کہ کیا میرا کوئی ہم زبان ملاہے؟

سپاہی گردن نفی میں ہلاتا ہوا روز واپس چلا جاتا ہے۔ میں اس کی گردن تائید میں ہلنے کا منتظر رہتا ہوں۔

اگر میرے پاس آئینہ ہوتا تو یقینا میں دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ میرے بال کتنے سفید ہوچکے ہیں اور مجھے کوئی بھی ہم زبان نہیں ملا۔

تبصرے (1) بند ہیں

شہریار قاضی Aug 09, 2019 12:10pm
نیند میں چلتا ہوا شہر از جمیل ختر ، بہت ہی عمدہ افسانہ ہے۔ جس میں علامتی انداز میں موجودہ صورت_حال کی عکاسی کی گئی ہے اور خوب کی گئی ہے۔