جہاں یہ ایک بڑی خوش آئند بات ہے کہ حکومت پلاسٹک کے کوڑے پر پابندی عائد کرنے کے لیے قوانین منظور کر رہی ہے وہیں لوگوں کو قابلِ عمل ماحول دوست متبادل مصنوعات کی تعلیم سے آراستہ کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ ماحول دوست بنے رہیں اور انجانے میں ماحول کے لیے مزید بگاڑ کا باعث نہ بن رہے ہوں۔
مثلاً، اسٹائروفوم کے ڈبے ماحول کے لیے پلاسٹک جتنے ہی بُرے ہیں، جبکہ کاغذی تھیلیاں درختوں سے بنتی ہیں اور ان کا ایک سے زائد بار استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
پٹ سن، کاٹن یا ہیوی ڈیوٹی مٹیریل سے بنی تھیلیاں دیرپا استعمال کی صلاحیت رکھتی ہیں، جبکہ بانس یا بید کی ٹہنیوں سے بنی ٹوکریاں مکمل طور پر بائیوڈی گریڈ ایبل ہیں اور اس وجہ سے ماحول دوست آپشن بھی قرار پاتی ہیں۔
پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کو محدود کرنے کے لیے عالمی سطح پر مہم زور پکڑ رہی ہے۔ کئی ممالک پہلے ہی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کرچکے ہیں یا پھر پلاسٹک کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی غرض سے بھاری جرمانے نافذ کرچکے ہیں۔
روزمرہ کی خریداری میں پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ترک کرکے ہم میں سے ہر ایک اپنے حصے کا پلاسٹک کوڑا محدود کرنے کی جانب پہلا مفید قدم ثابت ہوگا۔
اسلام آباد میں پلاسٹک پر پابندی کا نفاذ مؤثر ثابت ہوجانے کے بعد اس کا دائرہ آہستہ آہستہ دیگر صوبوں تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے اور تھیلیوں کے ساتھ پلاسٹک کی بوتلوں، کٹلری اور مشروب پینے والے اسٹرا جیسی صرف ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی چیزوں پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔
یہ مضمون 3 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔