کچھ عرصہ قبل ہی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)سمیت کچھ ممالک کی تنظیموں کی جانب کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا کا ہر بالغ شخص سالانہ 50 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زمین کی ایسی کوئی جگہ نہیں ہیں جہاں پلاسٹک ذرات موجود نہ ہوں، سمندر کی گہرائی سے لے کر ساحل سمندر کی ریت، پانی کی بوتل سے لے کر ڈسپوزایبل کھانے کے پیکٹوں اور راستوں پر پلاسٹک یا اس کے ذرات موجود ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی مائکروپلاسٹک پر حال ہی میں ایک مفصل رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ ہوا، پینے کے پانی اور غذائی اشیاء میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال کی روک تھام کے لئے بہت سے اقدامات کئے جارہے ہیں اور اسلام آباد میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ سندھ اور دیگر مقامات پر بھی اس طرح کی پابندی کا نفاذ جلد ہوگا۔

لیکن اب دیکھنا یہ ہے حکومتی اقدامات سے ہٹ کرعوام، جو تقریبا 70 سال سے اپنی روز مرّہ ضروریات سے لے کر باقی چیزوں میں پلاسٹک کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں، اس حکومتی فیصلے پر کس حد تک عمل درآمد کرتے ہیں. مگر اس سب سے پہلے یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال کو ترک کرنے پر زور کیوں دیا جا رہا ہے.

پلاسٹک ایک پولیمر ہے. سائنسی اصطلاح میں پولیمرایک جیسے ایٹموں کی زنجیر کو کہتے ہیں. یہ پولیمیرز زیادہ تر کاربن اور ہائیڈروجن کے ایٹموں سے بنے ہوتے ہیں. جبکہ چند پولیمرز آکسیجن، نائٹروجن، سلفر، کلورین، فلورین، فاسفورس اور سلیکون سے بنتے ہیں.

پولیمر میں موجود یہ ایٹم آپس میں بہت زیادہ مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک 500 سے ایک ہزار سال تک ختم نہیں ہوتا. پلاسٹک کی اسی مضبوطی اور عرصہ دراز نہ ختم ہونے کی صلاحیت نے ہمیں اس کے استعمال کی طرف راغب کیا.

ہماری روز مرہ کی زندگی میں پلاسٹک کا استعمال اس قدر زیادہ ہوچکا ہے کہ اس کے استعمال کی بغیر زندگی مشکل محسوس ہوتی ہے. اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پلاسٹک کی بہت سی مصنوعات ملیں گی. کسی تفریحی مقام پر مسرور ہونے کے لئے جائیں تو پلاسٹک کی بوتلیں، گلاس اور شاپروں کی موجودگی گندگی پھیلاتی نظر آئے گی.

اسی طرح اگر کسی دریا کے کنارے بیٹھے ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو ہوا کو گرد آلود کرتے اڑتے ہوئے شاپر اس حسین نظارے پر داغ دار کردیتے ہیں.

گھروں میں استعمال کے بعد پھینک دیے جانے والا پلاسٹک نالیوں اور گٹروں میں پھس کر پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور وہی گندا پانی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آتا ہے جس سے طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں. گزشتہ دنوں کراچی میں شدید بارشوں کی وجہ سے گلیوں اور سڑکوں پر نظر آنے والی گندگی اسی پلاسٹک کی مرہون منت تھی اور اس کی رہی سہی کسر قربانی کے جانوروں کی آلائشوں نے نکال دی.

کھلونوں، کھانے کے برتنوں اور ڈبوں، فرنیچر اور برقی آلات میں پلاسٹک کے استعمال نے جہاں لکڑی کے استعمال کو کم کرکے جنگلات کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہیں زمین میں دبے پلاسٹک نے زیرزمین پانی کے ذخائر کو بری طرح متاثر کیا ہے. یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں پینے کے صاف پانی کی کمی ہوتی جارہی ہے.

پلاسٹک کا استعمال صرف ماحول کے لئے ہی برا نہیں بلکہ تمام جانداروں کے لئے بھی وبال جان ہے. پلاسٹک کے شاپر میں یا ڈبے میں لی گی لذیذ غذا کسی زہر سے کم نہیں ہے. اسکول اور دفاتر جانے والے پلاسٹک کے ڈبے میں کھانا لے جاتے ہیں جو کہ مائکروویو اون میں گرم کرکے کھانے پر زہر میں تبدیل ہوجاتا ہے کیونکہ گرم ہونے پر پلاسٹک کے اجزا کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جوکے انسانی جسم میں داخل ہوکر کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں.

ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ بائیس فینول اے (BPA) پلاسٹک کا ایک ایسا کیمیائی جز ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے. اکثر پلاسٹک بنانے والے کارخانے اپنا فاضل مادے کا اخراج نہروں اور نالوں میں کرتے ہیں جس سے آبی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ان کی بہت سی انواع ناپید ہونے کا خطرہ بڑھنے لگا ہے.

اب بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال منڈلا رہا ہوگا کہ اب تو پلاسٹک ہماری روز مرہ استعمال کی ہر چیز میں پایا جاتا ہے اور اگر حکومت کے کہنے پر اس کا استعمال ترک کر بھی دیں تو ان کی زندگی میں بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے.

آج پلاسٹک کے متبادل متعدد چیزیں موجود ہیں جن میں کاغذی لفافے ،کپڑے کے ٹھیلے اورماحول دوست شاپر شامل ہیں.

پاکستان میں حکومت کے علاوہ بہت سےتعلیمی اور صنعتی ادارے پلاسٹک کےاستعمال کے خلاف مہم چلا رہے ہیں جن میں تعلیمی ادارہ کومسٹس یونیورسٹی اسلام آباد، "گائیہ (GAIA) بیگز" اور"ذی بیگز" اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں. گائیہ (GAIA) بیگز پولی پروپائیلین (Polypropylene) پولیمیرز سے بنے ہوئے ہیں جو کہ مضبوط اور ماحول دوست کیمیائی مرکب ہے اور سب سے اہم بات کے انہیں بنانے میں زہریلی گوند استعمال نہیں کی گئی .اسی طرح زی بیگز کاغذ کے بننے لفافے ہیں جو کہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ سستے بھی ہیں.

آخر میں یہی کہوں گی کہ ہمارے ماحول اور تمام جانداروں کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ پلاسٹک کے استعمال کو ترک کریں.

گھروں میں پلاسٹک کی مصنوعات کی بجائے چینی یا شیشے کے برتنوں کو ترجیح دیں. پلاسٹک کے شاپروں کی بجانے متبادل چیزوں کا استعمال شروع کریں. ہمیں ملک پاکستان باقی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ مشہور مقولہ ہے کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے لہذا ماحول اور ملک دونوں کی بہتری کے لئے ہر فرد کا کردار اہم ہے.


ندرت احسان بایو ٹیکنالوجیسٹ ہیں جنہوں نے فورمن کرسچین کالج یونیورسٹی سے ایم فل کیا ہے اور کیمبرج کے طالب علموں کو پڑھاتی ہیں. یہ اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک اف پاکستان کی سینئر ممبران میں سے ہیں اور حیاتیات کے مضامین لکھنے میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں. ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے.

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @ehsan_nudrat


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں