مسئلہ کشمیر کے حوالے سے 70 سالہ پرانی اقوام متحدہ کی قرارداد کافی حد تک فوری اہمیت کھو چکی ہے۔ اگرچہ دونوں ملک قرارداد پر عمل کے پابند تو نہیں ہیں لیکن اس کے مطابق پاکستان کو کہا گیا کہ وہ ان 'قبائلی افراد اور پاکستانی شہریت رکھنے والوں کو وادی سے نکلوائے جو کشمیر کے رہائشی نہیں ہیں لیکن لڑائی کے مقصد سے یہاں آئے، جبکہ بھارت کو کہا گیا کہ وہ وادی میں اپنی فوجی تعیناتی محدود تر کردے۔ ان اقدامات سے استصوابِ رائے کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا اور کشمیری اپنی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے۔ تاہم دونوں ملک اپنے اپنے مؤقف پر اڑے رہے۔ یوں استصوابِ رائے کا عمل کبھی ہو ہی نہیں پایا۔
یہ تو رہی تاریخ کی بات۔ اچھا تاریخ کو تو دوبارہ لکھا جاسکتا ہے لیکن جغرافیہ میں رد و بدل ہرگز ممکن نہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں برصغیر کا حصہ ہیں۔ ہماری ندیاں مقبوضہ کشمیر سے گزرتی ہیں، اور آلودگی سرحدیں نہیں جانتی۔ اگرچہ ہم نے بھارتی ہوائی جہازوں اور ٹرکوں کے لیے فضائی اور زمینی آمدو رفت بند کردی ہے، مگر ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوری جذباتی رد عمل جتنی بھارت کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اتنی ہے بُرے ہمارے لیے بھی ثابت ہوتے ہیں۔
بھارتی صدر کو پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دینا اور وزیر سائنس کا بھارتی چاند گاڑی کی مہم کی ناکامی پر مذاق اڑانا چھوٹے پن کا مظاہرہ ہے۔ موجودہ حالات میں بھارت اور پاکستان میں بالغ سوچ کی بڑی ہی قلت دکھائی دیتی ہے۔
دونوں ملکوں کے سربراہان کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ہر ایک حقیقت سے واقف کریں اور عامیانہ و سطحی سوچ نہ اپنائیں۔ یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس معاملے میں بھارتی وزیر اعظم اپنے زہریلی و فساد انگیز بیان بازی کے ساتھ ناخوشگواریت پھیلانے کی ریس میں کافی زیادہ آگے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ مضمون 14 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع۔