بیرکوں میں چھت کے پنکھے لگانے سے لے کر اہلِ خانہ سے ملاقاتوں میں آسانیاں پیدا کرنے تک جیل اصلاحات کے اس پورے عمل کے دوران یہی خیال غالب رہا کہ چاہے بد سے بدتر مجرم کیوں نہ ہو لیکن انسان ہونے کے ناطے ان کا پیدائشی وقار قائم رہنا چاہیے۔
مہذب معاشرے نہیں چاہتے کہ پہلی بار قانون کو ہاتھ میں لینے والے جیل کے بُرے حالات کے باعث سخت گیر مجرم بن جائیں۔ نہ ہی وہ چاہتے ہیں کہ غلط کام کرنے والوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے۔
اس کے برعکس ان کی خواہش یہ ہوگی کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کتھارسس catharsis (ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنے دبے ہوئے شدید جذبات و احساسات کا کسی صورت میں اظہار کرکے ذہنی سکون، تطہیر اور تجدید حاصل کرتا ہے) کے عمل سے گزریں اور اپنے اذہان کو مجرمانہ خیالات سے پاک کریں۔
پاکستان میں موت کی سزا پانے والے کئی قیدی کارآمد شہریوں میں تبدیل ہوگئے تھے لیکن اس قدر تبدیلی کے باوجود بھی انہیں پھانسی پر ہی لٹکایا گیا۔
افریقہ کے نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم نظام میں سیاہ فام افریقیوں کی زندگی یا آزادی کا کوئی احترام نہیں تھا تاہم ویران جزیرے روبن میں واقع جس جیل کے قید خانے میں نیلسن منڈیلا کو رکھا گیا تھا وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں تھیں۔ ان سہولیات میں پلنگ، میز اور ایک ایسی کھڑکی کی سہولت موجود تھی جہاں سے آسمان کو دیکھا جاسکتا تھا، یعنی وہ سبھی سہولیات جو آج حکومتِ پاکستان مخصوص درجے کے قیدیوں کو فراہم کرنا نہیں چاہتی۔
لہٰذا ملک کی جیلوں کو مغلیہ دور کے تہہ خانوں میں تبدیل کرنے کے بجائے جامع جیل اصلاحاتی منصوبے پر کام کرنا چاہیے۔ اس کا پہلا کام قیدیوں کی تعداد میں کمی ہونی چاہیے، اس مقصد کے لیے مقدمات کا سامنا کرنے والے ایسے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو ضمانت پر رہائی دی جائے جو قید میں رکھے جانے کے مستحق ہی نہیں ٹھہرتے۔
اس موضوع پر 18ء-2017ء میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے قومی انسداد دہشتگردی کے ادارے اور (سول سوسائٹی کا ادارے) سی او ڈی ای کے تعاون سے ایک بہت ہی نمایاں تحقیقی کام کیا۔ Addressing Overcrowding in Prisons by Reducing Pre-Conviction Detention in Pakistan کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ تحقیق وفاقی اور صوبائی نظامِ فوجداری انصاف، جیل افسران، عدالتی حکام، بار کونسلز، اعلی تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور سول سوسائٹی کے ماہرین کی پیش کردہ تجاویز پر مبنی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق یکم اکتوبر 2017ء تک (سابقہ فاٹا کے علاوہ) ملک کی جیلوں میں 53 ہزار 744 قیدیوں کی باضابطہ گنجائش کے بجائے 84 ہزار 287 قیدی مقید ہیں۔ تحقیق جیل کی گنجائش کا حساب لگانے کے طریقہ کار پر سوال کھڑا کرتی ہے، اگر رپورٹ میں بتائے گئے جیل کی گنجائش کے حسابی فارمولے کو اختیار کیا جائے تو اضافی قیدیوں کی شرح اور بھی زیادہ بن جاتی ہے۔