لکھاری سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔
لکھاری سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔

پاکستان اور ایران دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں سب سے زیادہ پھانسیاں دی جاتی ہیں۔ تاہم گزشتہ ماہ جب ایران جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ دونوں ممالک کے بچوں کی جیل کا نظام ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔ ہم نے تہران میں واقع بچوں کی جیل (Juvenile Correction & Rehabilitation Centre) کا دورہ کیا، جہاں 4 لڑکیوں سمیت کل 160 بچے موجود تھے۔ وہاں 141 افراد پر مشتمل اسٹاف ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرنے والے بچوں کا خیال رکھتا ہے۔ ان میں زیادہ تر بچوں کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں لیکن کئی بچے ایسے بھی ہیں جنہیں سزا سنائی جاچکی ہے۔ پورے ایران میں ایسے 28 مراکز ہیں جہاں 600 بچے قید ہیں۔

میں پاکستان کے 50 سے زائد بچوں کے جیل خانے دیکھ جاچکا ہوں۔ لیکن تہران میں صورتحال بہت مختلف پائی۔ وہاں گیٹ پر کوئی پولیس اہلکار یا کوئی گارڈ نہیں کھڑا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ 1968ء میں 40 ہزار میٹر رقبے پر محیط اس مرکز نے شاہ حکومت کے دوران کام شروع کیا۔ یہ اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق پر کنونشن سے بھی پہلے کی بات ہے۔ حکومت نے اکتوبر 1968ء میں پورے ملک میں ایسے اصلاحی اور ری ہیبلی ٹیشن مراکز کے قیام کے لیے خصوصی ضابطوں کی منظوری دی تھی۔ اس وقت یہ مرکز تہران کے باہر تھا لیکن وسعت کی وجہ سے اب یہ شہر کے اندر ہی واقع ہے۔

اس مرکز کے دورے پر میرے ساتھ یورپی باشندے بھی تھے اور وہ بھی اس مرکز کو دیکھ کر حیران تھے۔ یہاں سوئمنگ پول اور ان ڈور کھیلوں کی سہولیات موجود ہیں، ہم نے بچوں کو مکمل کٹ کے ساتھ فٹ بال کھیلتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس کے علاوہ جم کی سہولت اور تعلیمی پروگراموں کا بھی بندوبست ہے۔ بچوں کے لیے بنیادی تعلیم کی کلاسز، ابتدائی، مڈل اور ہائی اسکول کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل کلاسز کی سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ یہاں دی جانے والی تعلیم کی نگرانی تہران کی ایجوکیشن آفس کے سپرد ہے۔

اگر بچہ تعلیمی سال ختم ہونے سے پہلے رہا ہوجاتا ہے تو اسے یہاں حاصل ہونے والی علمی اور ٹیکنیکل تعلیم کی سند دی جاتی ہے۔ ان پڑھ بچوں کے لیے بنیادی تعلیم کی کلاسز لینا لازمی ہے، جبکہ اس کے آگے تعلیم حاصل کرنی ہے یا نہیں، یہ بچے کی اپنی مرضی پر منحصر ہے، زبردستی نہیں کی جاتی۔

ہم نے یہاں بچوں کو ووکیشنل ورک شاپس میں تربیت لیتے ہوئے بھی دیکھا جہاں بچے گڑیا، مٹی کے برتن، لکڑی پر نقش و نگاری کے کام اور لکڑی سے مختلف چیزیں بناتے ہیں اور آٹو ریپیئرنگ اور کمپیوٹر استعمال کرنے کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹریشن، حجامت یا باغبانی کے کام میں مہارت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ کلچرل دفتر کے ماہرین ہر بچے کے دستاویزات کا جائزہ لیتے ہیں اور بچے کی دلچسپی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس بچے یا بچی کو کس سرگرمی میں حصہ لینا چاہیے۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیت اپنی مرضی کے مطابق حاصل کی جاسکتی ہے اور بچے تعلیمی کلاسز کے بعد فارغ اوقات میں ہی ان تربیتی کلاسز میں حصہ لیتے ہیں۔

ان مراکز میں جسمانی سزا کی ممانعت ہے۔ قیدِ تنہائی، ہتھکڑیوں اور بیڑیوں، طوق کا تو یہاں تصور بھی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں باقاعدگی کے ساتھ نماز کی ادائیگی اور قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی پرسنل لاز اور اخلاقی اصولوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے، لیکن ماحول میں مذہبیت کا رنگ غالب نہیں اور بچے اپنی شخصیت میں کافی پُرسکون اور لبرل نظر آئے۔ یہاں ایسی نشستوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے جہاں علما بچوں کے ذہن میں موجود مذہب کے حوالے سے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔

اس اصلاحی مرکز میں لائبریری، صحت، نفسیاتی اور سماجی اعتبار سے کونسلنگ کی سہولت بھی میسر ہے۔ قیدی بچوں کے اس مرکز کے ڈائریکٹر نے ہمیں بتایا کہ ہمارا مقصد اس مرکز کو ایک جیل کے بجائے بورڈنگ اسکول کے طور پر چلانا ہے۔

بس یہیں پر آکر ہم پاکستان میں غلطی کر بیٹھتے ہیں اور ہم قانونی خلاف ورزیاں کرنے والے ہر بچے کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک برتتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی جیلوں میں 1 ہزار 300 بچے موجود ہیں۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ 20 برس قبل یہ تعداد 90 فیصد زیادہ تھی۔

یہ مثبت تبدیلی جوئینائل جسٹس سسٹم آرڈینینس، 2000 متعارف کیے جانے کے بعد سامنے آئی، جس نے لبرل ضمانت پر رہائی کو فروغ دیا۔ تاہم، بچوں کو کن حالات میں قید رکھا جاتا ہے اس پر آرڈینینس اور اب جس نئے ایکٹ نے اس کی جگہ لی ہے اس میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔

بنیادی طور پر ہماری جیلوں میں بچوں کو الگ رکھا جاتا ہے اور ہم ان پر صرف ایک یہی احسان کرتے ہیں۔ جبکہ باقی تمام عملی مقاصد کے لیے، جیل کے بالغ قیدیوں کو سنبھالنے والااسٹاف ہی وہاں موجود ہوتا ہے جو بچوں کے ساتھ عام قیدیوں جیسا ہی رویہ روا رکھتے ہیں۔

تمام بچوں کو ہالز میں رکھا جاتا ہے اور ہال کا ایک حصہ کھلا ہوتا ہے جہاں بچے زمین پر پہلو بہ پہلو سوتے ہیں۔ ایک حصہ کھلی ہونے کی وجہ سے موسم سرما میں ہالز ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ ٹوائلٹس بھی ہالز میں ہی بنے ہوتے ہیں جہاں فلش اور سیوریج کا نظام اکثر و بیشتر ناکارہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے پوری جگہ میں بدبو پھیلی ہوتی ہے۔

بچے سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور 4 بجے انہیں دوبارہ حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ ایسے زیادہ تر قید خانے ٹی وی اور انڈور کھیلوں کی سہولت سے محروم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کے پاس وقت گزارنے کے لیے کوئی سرگرمی نہیں ہوتی۔ ٹیکنیکل، ووکیشنل یا کھیلوں کی سہولیات تو ایک طرف تعلیمی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔

ہمارے بچے بھی ایران کے بچوں کی طرح بہتر حالات کے مستحق ہیں۔ ایران ان اصلاحی مراکز کو کسی دوسرے سے مالی و تکنیکی مدد مانگے بغیر مکمل طور پر اپنے طور پر چلاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہم یہاں چھوٹے چھوٹے کاموں اور کبھی کبھار کمپیوٹر یا ٹی وی جیسی چھوٹی چیزوں کے لیے بھی ڈونر کو درخواست کرتے ہیں۔ اس لیے ایران بالکل اپنے اس اصلاحی مرکز پر فخر کرنے کا حق رکھتا ہے، اور ساتھ ساتھ ہم یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی بچوں کو بہتر حالات اور سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ہم بھی اپنا سر فخر سے اونچا کرسکیں۔

یہ مضمون 16 دسمبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Abdullah Dec 23, 2018 04:16pm
Sir this is an important issue n we need to raise voice 4 our next gen