پاکستان کے کئی شہروں میں ہونے والے مارچ سے ملک کے نوجوانوں کا صرف چھوٹا حصہ ہی یکجا ہوپائے گا، چند نوجوانوں کو قائل ہونا باقی ہے جبکہ کئی نوجوانوں کو اس بارے میں کچھ خبر نہیں یا پھر وقت کی تنگی کے باعث شرکت نہیں کر پائیں گے (ٹھیک ویسے ہی جیسے یکم مئی کو بھی مزدور اپنی دہاڑی نہیں چھوڑا کرتے۔)
نوجوانوں کے کئی دیگر حلقوں کے ساتھ اس ایک حلقے کو بھی اس کلائمٹ ایکشن موومنٹ کا لازمی حصہ بنانا چاہیے جس نے پی ٹی آئی کی دانستہ طور پر حمایت کی اور اسے اقتدار میں لے آئے۔ انہیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا پاکستان کو انتقامی سیاست سے آگے لے جانے میں پی ٹی آئی نے کوئی مدد فراہم کی ہے؟ یا پھر حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں؟
اگر گزشتہ 12 ماہ کے دوران امید کی کوئی کرن نظر آئی ہے تو وہ یہ ہے کہ کئی عام پاکستانی، بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد نہ صرف اس نظامِ حکومت کے قیام میں اسٹیبلشمنٹ کے ادا کردہ کردار کے حوالے سے بتدریج آگاہ ہوتے جارہے ہیں، بلکہ تنقید بھی کرتے ہیں جس نظام کو سرل المیڈا ‘ہائبرڈ‘ نظامِ حکومت پکارتے ہیں جو ہمیں پاتال کی تہوں کی طرف لے جائے گا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم یکجا ہوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتے ماڈل سے آگے بڑھیں اور ایک خالص عوامی سیاست، عوام کی جانب سے کی جانے والی سیاست اور عوام کے لیے کی جانے والی سیاست کا نظام وجود میں لائیں۔ فیصلے کا اختیار ہم سب کے پاس ہے، اور ہمارے مستقبل کا دار و مدار بھی اسی فیصلے سے منسلک ہے۔
ترجمہ: ایاز احمد لغاری
یہ مضمون 20 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔