سلامتی کونسل کیوں نہیں سمجھ رہی کہ آج حالات 1998 جتنے ہی خراب ہیں


1998ء میں پاکستان اور بھارت کی جانب سے کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے کشیدہ حالات پوری دنیا نے دیکھے۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان حالات کا فوری نوٹس لینے پر مجبور ہوگئی۔
6 جون 1998ء کو سلامتی کونسل نے 1172 قرارداد منظور کی جس میں دونوں ملکوں سے کہا گیا کہ وہ تناؤ ختم کرنے کے لیے تمام اہم معاملات پر مذاکرات کی راہ اپنائیں۔ چند دن قبل صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل ممبران کے وزرا جنیوا میں اکٹھا ہوئے اور دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کو کم کرنے کے طریقوں پر غور کیا۔
جنیوا میں ہونے والے اس اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں وزرا نے اس بات کی توثیق کی کہ وہ ’دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور تعاون کو فروغ دینے کی خاطر پاکستان اور بھارت کی ایک ایسے طریقہ کار کے تحت معاونت کرنے کے لیے تیار ہیں جو دونوں کو قابل قبول ہوں۔ وزرا نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ کشمیر جیسے بنیادی مسائل کے باہمی طور پر قابلِ قبول حل تلاش کرنے اور تنازع کی راہ لینے کے بجائے اعتماد قائم کرنے کی کوششوں کے لیے براہِ راست مذاکراتی عمل شروع کرنے پر زور دیتے رہیں گے۔‘
انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ’دونوں ریاستوں کے درمیان تناؤ کم کرنے کے لیے دونوں فریقین کی درخواست پر اعتماد سازی اور تحفظ کے فروغ سے جڑے اقدامات کے لیے ہر ممکنہ سہولت فراہم کریں گے۔‘
8 جولائی 1998ء کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری نے اپنے خط کے ذریعے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے صدر کو مطلع کیا کہ اس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی نے 30 جون 1998ء کو سیکریٹری جنرل کے نام لکھے گئے خط میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے خط میں اس بات کا بھی اظہار کیا کہ پاکستانی حکومت بھی کشمیر جیسے اہم مسئلے سمیت دونوں ملکوں کے درمیان دیگر مسائل کو نمٹانے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی خواہاں ہے۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے الحاق کی غیرقانونی کوشش کے بعد آج نئی دہلی کو جس قدر شدید ردِعمل کا سامنا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
غالب خیال یہ ہے کہ بھارت کے اس غیر منصفانہ اقدام سے فلسطینی انتفاضہ طرز کی ایک طویل المدت مسلح مزاحمت کی راہ ہموار ہوگی جس کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں کی توجہ بھارت کے پیدا کردہ بحران کی طرف جاسکتی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے اگر اپنی ازلی فطرت کے مطابق کشمیریوں کے ساتھ ظلم و جبر کو جاری رکھا تو اسے روکنے کے لیے عالمی پیمانے پر واحد مؤثر علاج کے طور پر دہشتگردی اور مذہب کے نام پر جنگوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔
جنوبی ایشیا میں ایک بار پھر مئی 1998ء جیسے کشیدہ حالات ہیں جو پہلے جیسے اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔