لہٰذا یہ جائزہ لینا ٹھیک رہے گا کہ موجودہ حالات میں 4 جون 1998ء کو سلامتی کونسل کے 5 مستقل ممبران کی وہ پیش کش کس قدر قابلِ اطلاق ہے جس میں انہوں نے تناؤ میں کمی لانے اور اعتماد سازی اور تحفظ کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات میں معاونت فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
سابقہ اور موجودہ حالات میں بحران کی شدت اور اس سے امن اور سلامتی کے لیے پیدا ہونے والے خدشات یکساں نوعیت کے ہیں، لہٰذا 5 مستقل ممبران کو مخلصانہ اقدامات کرنے کے لیے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تاکہ وہ عالمی امن و سلامتی کو بحال رکھنے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اقدامات کرکے 1998ء میں کیے گئے اپنے وعدے کا بھرم رکھ سکیں۔
اگرچہ 1998ء کا یہ عہد پرانا تو ہے لیکن یہ نہایت مخلصانہ انداز میں کسی مدت کا اشارہ دیے بغیر کیا گیا تھا۔ مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے جس انداز میں یہ عہد کیا گیا تھا اس سے مستقل ممبران کی جنوبی ایشیا میں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش صاف ظاہر ہوتی ہے۔ دراصل حالات کی یہی وہ سنگینی تھی جس نے ان ممبران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق (اور ذمہ دار اسٹیک ہولڈرز ہونے کے ناطے آزادانہ طور پر) اپنے تمام تر اختیارات کے ذریعے معاونت کے لیے رضامندی اور اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا بھرپور عزم ظاہر کیا۔
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے کی گئی درخواست کے بعد سیکریٹری جنرل نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے صدر کے نام 8 جولائی 1998ء کو خط لکھا جس میں سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری جنرل نے دونوں فریقین کے درمیان اختلافات ختم کروانے کے لیے پرامن مصالحتی ماحول پیدا کرنے کی کوششوں کے حوالے سے صدر کو آگاہ کیا۔
اس خط میں 30 جون 1998ء کو بھارتی وزیرِاعظم کی جانب سے سیکریٹری جنرل کو لکھے گئے اس خط کا بھی خاص طور پر ذکر کیا گیا جس میں بھارتی وزیرِاعظم نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز پر بھارت کی رضامندی ظاہر کی تھی۔ بھارت کی یہ رضامندی مذاکرات کے ذریعے تمام تنازعات حل کرنے کے بھارتی ریاست کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔