جہاں تک تعلق واپڈا کی جانب سے 75 ہزار ایکڑ پر محیط زرعی زمین کو سیراب کرنے کی خاطر دریائے سندھ کے دونوں جانب نہریں تعمیر کرنے کے منصوبوں کا ہے تو میرے خیال میں اگر یہ ادارہ اس حوالے سے مناسب تحقیق کرتا تو اسے اس بات کا اندازہ ہوجاتا کہ سندھ کی ساحلی پٹی کا کوئی ایک بھی قابلِ کاشت ایکڑ موجودہ نہری جال سے باہر نہیں ہے۔
سندھو ڈیلٹا کی موت اور سمندری چڑھائی کے باعث زرعی زمین کا نقصان، اور اس مسئلے کے حل کی افادیت کا تعلق بنیادی طور پر دریائی پانی کی دستیابی سے ہے۔ برسا برس سے جاری ڈاؤن اسٹریم کوٹری کی زرعی زمین کی بے ضابطہ الاٹمنٹ اور موجودہ نہری نظام سے پانی چوری کیے جانے کے باعث بدین، سجاول اور ٹھٹہ میں پانی کی دائمی قلت شدید تر ہوچکی ہے جس وجہ سے ان اضلاع کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں آبی وسائل کو اس وقت زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھے بغیر مرتب کردہ پرعزم منصوبوں سے زیادہ مؤثر انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ ناکافی پانی کے ساتھ دریا پر بیراج تعمیر کرنے سے سمندری چڑھائی کا عمل بد سے بدتر کرنے اور ڈیلٹا کی موت میں مزید تیزی لانے کے علاوہ شاید ہی کوئی مقصد پورا ہو۔
یہ مضمون 30 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ترجمہ: ایاز احمد لغاری