لکھاری سندھ میں بطور سیکریٹری برائے آبپاشی و توانائی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
لکھاری سندھ میں بطور سیکریٹری برائے آبپاشی و توانائی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے اندر دریائے سندھ پر اربوں ڈالر کی مالیت کے بیراج کی تعمیر کا نہ صرف منصوبہ ترتیب دیا گیا بلکہ منظوری بھی دے دی گئی۔

واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کا مرتب کردہ سندھ بیراج منصوبہ سندھ کے ساحلی اضلاع میں پانی کی دائمی قلت دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔ تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے منصوبے کی منظوری میں جلدبازی اور رازداری کا مظاہرہ سمجھ سے باہر ہے۔

جس مقام پر دریائے سندھ کا پانی بحیرہ عرب میں گرتا ہے وہاں سے تقریباً 45 کلومیٹر دور 125 ارب روپے کی لاگت سے بننے والے مجوزہ سندھ بیراج کے حوالے سے واپڈا کی ویب سائٹ پر مختصر تشہیری ویڈیو دستیاب ہے۔ ویڈیو میں چیئرمین واپڈا دریائے سندھ کے آگے مجوزہ منصوبے کے تعمیراتی مقام پر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ویڈیو میں وہ بتاتے ہیں کہ سندھ بیراج کی تعمیر کا مقصد سمندری چڑھاؤ پر قابو پانا، ٹھٹہ، سجاول اور بدین کی 75 ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کرنا اور مینگرووز ویٹ لینڈ کی بحالی ہے۔ اسی ویڈیو میں انہوں نے مجوزہ سندھ بیراج اور کوٹری بیراج کے درمیان 167 کلومیٹر طویل دریائی پٹی کو آبی ذخیرے میں تبدیل کرنے کے ممکنہ پلان کا اشارہ بھی دیا ہے جو ’ایشیا کی طویل ترین جھیلوں‘ میں سے ایک جھیل بن سکتی ہے۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے واپڈا 12 میٹر بلند بیراج کی تعمیر اور دریائی پٹی میں 7 کلومیٹر کی توسیع کرنے کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے کو 9 کلومیٹر طویل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ واپڈا مجوزہ بیراج کے دائیں اور بائیں جانب دو نہریں نکالنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ منصوبے کا تعمیراتی کام دسمبر 2022ء میں شروع ہوگا ور دسمبر 2024ء تک اس منصوبے کی تکمیل کی توقع کی جا رہی ہے۔

زبانی طور پر تو یہ پلان کافی اچھا معلوم ہوسکتا ہے لیکن اس میں کئی خرابیاں موجود ہیں۔ سندھ بیراج کتنا کارگر ثابت ہوگا اس کا دارومدار جن بنیادی عناصر پر ہے اس میں سے ایک اہم عنصر ڈاؤن اسٹریم کوٹری میں پانی کی دستیابی ہے۔ واپڈا سمجھتی ہے کہ سمندری چڑھاؤ پر ’قابو‘ پانے کے لیے وہ کوٹری بیراج سے پانی کے اخراج (آؤٹ فلو) کو ریگولیٹ کرتے ہوئے 10 ایم اے ایف (million acre feet) سے تھوڑا سا زیادہ پانی چھوڑ کر اس ضرورت کو پورا کرسکتی ہے۔

تاہم، ایسے میں دو اہم باتیں نظر انداز کردی جاتی ہیں: پہلی یہ کہ برسا برس سے ماہرین کہتے آ رہے ہیں کہ بحیرہ عرب کے پانی کو پیچھے دھکیلنے اور دریائی نالوں اور زرعی زمین کو تباہی سے محفوظ رکھنے کے لیے کوٹری سے سندھو ڈیلٹا کی جانب 10 ایم اے ایف کی مقدار میں چھوڑا جانے والا پانی ناکافی ہے۔ دوسری بات یہ کہ واپڈا کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق سمندری چڑھائی کے باعث تقریباً 9 ہزار کلومیٹر ساحلی پٹی پہلے ہی متاثر ہوچکی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ برسوں سے کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی کا بہاؤ ناکافی رہا ہے۔

حکومت سندھ نے اس منصوبے کی منظوری دینے سے قبل ممکنہ خدشات کا جائزہ لینا ہی گوارا نہ کیا۔ تاہم ایک بار تعمیراتی کام شروع ہونے کے بعد صوبائی حکومت کو ان سیکڑوں خاندانوں کو کسی دوسری جگہ آباد کرنا ہوگا جو تعمیراتی مقام کے قرب و جوار میں رہائش پذیر ہیں۔ اگر کوٹری سے نیچے دریائی پٹی کو جھیل میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل ہوتا ہے تو نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہوگی کیونکہ کوٹری سے سندھو ڈیلٹا تک بننے والی یہ جھیل ٹھٹہ، سجاول، ٹنڈو محمد خان اور جامشورو کے چند علاقوں یعنی مجموعی طور پر 4 اضلاع سے گزرے گی۔

ایک بار بیراج کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آبی ذخیرے سے پانی مسلسل زمین میں جذب ہونے کی وجہ سے ملحقہ علاقوں کی زرعی زمین تباہ ہوجائے گی۔ دوسری طرف دریائی پانی کے بہاؤ کی مستقل بندش سے دیگر سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس طرح کوٹری بیراج کا ڈاؤن اسٹریم اور حیدرآباد سمیت دیگر آس پاس کے علاقوں میں سیلاب کا ہر وقت خدشہ رہے گا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پانی کی اتنی بڑی مقدار کے اندر بننے والے ریت کے ٹیلوں اور بھاری دریائی ترسیب (sediments) کی موجودگی سے دریائی پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوگی جسے اگر روکا جاتا ہے تو یہ پانی اپنے بہاؤ کے لیے دیگر متبادل راستے تلاش کرے گا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف دریائے سندھ اپنا رخ تبدیل کرسکتا ہے بلکہ کوٹری بیراج ڈاؤن اسٹریم کے علاقوں میں جغرافیائی اور ٹوپوگرافی کے اعتبار سے تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہے۔

جہاں تک تعلق واپڈا کی جانب سے 75 ہزار ایکڑ پر محیط زرعی زمین کو سیراب کرنے کی خاطر دریائے سندھ کے دونوں جانب نہریں تعمیر کرنے کے منصوبوں کا ہے تو میرے خیال میں اگر یہ ادارہ اس حوالے سے مناسب تحقیق کرتا تو اسے اس بات کا اندازہ ہوجاتا کہ سندھ کی ساحلی پٹی کا کوئی ایک بھی قابلِ کاشت ایکڑ موجودہ نہری جال سے باہر نہیں ہے۔

سندھو ڈیلٹا کی موت اور سمندری چڑھائی کے باعث زرعی زمین کا نقصان، اور اس مسئلے کے حل کی افادیت کا تعلق بنیادی طور پر دریائی پانی کی دستیابی سے ہے۔ برسا برس سے جاری ڈاؤن اسٹریم کوٹری کی زرعی زمین کی بے ضابطہ الاٹمنٹ اور موجودہ نہری نظام سے پانی چوری کیے جانے کے باعث بدین، سجاول اور ٹھٹہ میں پانی کی دائمی قلت شدید تر ہوچکی ہے جس وجہ سے ان اضلاع کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

پاکستان میں آبی وسائل کو اس وقت زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھے بغیر مرتب کردہ پرعزم منصوبوں سے زیادہ مؤثر انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ ناکافی پانی کے ساتھ دریا پر بیراج تعمیر کرنے سے سمندری چڑھائی کا عمل بد سے بدتر کرنے اور ڈیلٹا کی موت میں مزید تیزی لانے کے علاوہ شاید ہی کوئی مقصد پورا ہو۔

یہ مضمون 30 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


ترجمہ: ایاز احمد لغاری

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Oct 02, 2019 11:12pm
میر محمد پرھیاڑ صاحب نے جو باتیں کی ہیں ان پر غور نہ کرنا حکومت کی نااہلی گنا جائے گا۔ ہم پہلے ہی اپنے سمندر کے دھانے کی آب و ہوا کو بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔ بند ہو سکتا ہے کہ وقتی فائدہ پہنچائیں لیکن مستقبل میں بہت لمبے عرصے تک ان کے نقصانات کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اسی کو کوتاہ بینی کہتے ہیں۔
A Abbas Oct 03, 2019 04:53am
I think its a very decently written article. However, one ground reality that he being Secretary Water Resources should have told that even being secretary he had no control over allotments of canal water. In this scenario, I think dual approach can work, one being Sindh Barage, and second being assessments of illegitimate connections.