لہٰذا اب ایف بی آر نے تمام صنعت کاروں کو پابند بنایا ہے کہ وہ جن دکانداروں اور ڈسٹری بیوٹرز سے لین دین کرتے ہیں ان سے ان کی قومی شناختی کارڈ کی نقل وصول کی جائے تاکہ ایف بی آر یہ پتا لگا سکے کہ یہ کتنی بڑی رقوم کے ساتھ لین دین کر رہے ہیں اور ان لوگوں کی نشاندہی بھی کی جاسکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یوٹیلٹی کمپنیوں سے ایسے تمام اداروں کی فہرستیں بھی اکھٹا کی ہیں جنہیں کاروباری یا صنعتی مقصد کے لیے گیس یا بجلی کے کنیکشن کی اجازت دی گئی ہے مگر ان کی جانب سے اب تک کوئی ریٹرن فائل نہیں کیا گیا۔
ان تمام اداروں کو بڑی تعداد میں نوٹس بھیجے جا رہے ہیں۔ چھوٹے دکانداروں کے لیے انہوں نے ٹیکس کا فکسڈ یا مقررہ نظام متعارف کروایا ہے، جس کے تحت دکاندار صرف دکان کے رقبے کے حساب سے طے کی گئی مقررہ رقم ادا کرسکتے ہیں اور اسی کو اس سال کے ٹیکس کی مجموعی سیٹلمنٹ قرار دے سکتے ہیں۔
اب تک تو سب کچھ ٹھیک دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں پر ایک مسئلہ نظر آتا ہے۔ سروسز کے شعبے کا ردِعمل زیادہ متاثرکن نہیں اور رقم کی منتقلی کو دستاویزی شکل دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنا قومی شناختی کارڈ دینے والے کاروباری افراد یا پھر جن لوگوں نے فائلرز بننے کا ارادہ کیا ہے ان کی تعداد اب تک بہت ہی کم رہی ہے۔
اس حوالے سے اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہیں البتہ فیکٹری مالکان سے بات کرنے کے بعد یہ معلوم چلا کہ جب وہ دکانداروں اور ڈسٹری بیوٹرز کو قومی شناختی کارڈ کی شرط کو پورا کرنے پر زور دیتے ہیں تو ان کی جانب سے بہت زیادہ ہچکچاہٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔
ان تمام تر معاملات سے بے چینی کو ہوا مل رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی لاگت اور کم ہوتی فروخت کا سامنا کررہے صنعتی شعبے نے پیداوار میں زبردست کٹوتی کا عمل شروع کردیا ہے اور دیہاڑی کی بنیاد پر کام کرنے والے جن افراد سے یہ شعبہ خدمات حاصل کرتا تھا ان کی تعداد میں بھی زبردست کمی آچکی ہے۔
صنعتی رہنما اب اپنے وفود کے ساتھ آرمی چیف کے پاس پہنچ رہے ہیں اور کھلے عام یہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس حکومت میں کس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکمراں جماعت کے اراکینِ پارلیمنٹ بھی ایوان کے فلور پر کھڑے ہوکر مہنگائی کو باآوازِ بلند تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
خود وزیرِاعظم بھی اس گرما گرمی سے پریشان ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ممبران پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی پوری توانائی اور توجہ عوام کو کچھ نہ کچھ ’ریلیف‘ دینے پر مرکوز کریں، چاہے پھر احساس پروگرام یا نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی کے منصوبے کے تحت کام میں تیزی لائی جائے (حالانکہ بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کی وجہ سے اس پراجیکٹ کے لیے اب تک پیسے بھی مختص نہیں کیے جاسکے ہیں) یا پھر تندور والوں کو ایڈجسٹمنٹ کے مقصد سے گیس نرخ میں کیے جانے والے اضافے سے چُھوٹ دی جائے تاکہ خوراک کی بڑھتی قیمتوں کو کسی بھی طرح روکا جاسکے۔