چلیے ملازمتوں اور کرپشن کے موضوع کو پھر کسی دن چھیڑیں گے مگر اس کرپشن اور ساتھ ساتھ جماعت سے اختلاف رکھنے والوں کو جھاڑ پلائی اور پھر اس کی بنا پر ایک نیا سیاسی ماحول پیدا ہوا۔ پھر کچھ عرصے بعد انہوں نے ایک ایسے شخص کو صلاح مشورے کے بعد منتخب کیا جو کسی وقت میں جماعت کے کارکن تھے اور جنہوں نے آگے چل کر جماعت کو دھوکہ دیا۔
کچھ عرصے بعد انہوں نے شہباز شریف جیسے اپنے لائق ساتھیوں کی مدد سے ڈیولپمنٹ کا اپنا برانڈ متعارف کروایا۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ ایک کسی ایسے شخص کے زیرِ حفاظت و حمایت کے طور پر نظر آنے لگے جو اپنے بل بوتے پر ہی عوامی جذبات کو اپنی مرضی کا رخ دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ تاہم اس وقت ان لوگوں کو کمزور کیے جانے کا عمل بنا رکے جاری رہا جو ماضی میں ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے تھے اور آج بھی ان کی حمایت میں آگے بڑھتے۔
وہ ادارے جو عوامی امنگوں اور خواہشات کو آواز دینے یا ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے انہیں بے دردی سے کچلا گیا۔ ٹریڈ یونین، طلبہ یونین اور ان دیگر مراکز اور ذرائع کو منظم انداز میں تہہ و بالا کیا گیا جو عوام کے ترقی پسند خیالات کو آواز دینے میں مدد کرسکتے تھے، ٹھیک ویسے ہی جیسے ان ووٹوں میں کمی لائی گئی جو اس نظام کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت چاہتے تھے جسے چلانے میں میاں صاحب مددگار رہے اور پرانے کلچر کی جگہ ایک ایسا نیا ماڈل متعارف کروا دیا گیا جہاں عوامی خواہشات کو صرف چند بنیادی شہری سہولیات تک ہی محدود کیا جاسکے۔
یہ ماڈل گزشتہ ساڑھے 3 دہائیوں سے رائج ہے جس کے نتائج تباہ کن رہے ہیں کہ جو لوگ میاں صاحب کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہوتے وہ اب اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔ کئی دیگر جو اس وقت حیات ہیں وہ ایسا کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ ان میں اتنی زیادہ کڑواہٹ اتر آئی ہے اور وہ اس قدر کمزور حالت میں ہیں کہ ان کی حمایت کو زیادہ سنجیدگی سے ہی نہیں لیا جائے گا۔
*یہ مضمون 4 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔**