لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

کئی لحاظ سے ہم ایڈجسٹمنٹ کے زبردست نقطہ عروج پر پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ برس جب یہ حکومت اقتدار میں آئی تھی تب سے ہر شخص کو علم تھا کہ یہ حکومت ٹیکسوں اور شرح سود میں اضافہ، کرنسی کی قدر میں کمی اور اخراجات میں کٹوتی کرے گی۔ یہ پالیسیوں کا ایک ایسا بنیادی پیکج ہے جسے اقتصادی ماہرین ایڈجسٹمنٹ پکارتے ہیں، اور اسے 2 اہم خساروں کو قابو میں لانے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے، پہلا ’مالی‘ اور دوسرا ’بیرونی خسارہ‘۔

تاہم ان پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے حکومت کو پیداوار میں زبردست سست روی اور مہنگائی و بے روزگاری میں اضافے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لینا پڑتی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے لیے یہ کام انجام دینے میں خاصی مشکل پیش آتی ہے کیونکہ منتخب نمائندگان کے پاس اپنے ووٹرز کی بات سننے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے، اور مہنگائی اور بے روزگاری جیسے چند معاملات کافی تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں، بالخصوص ایک ایسے سماج میں جہاں اکثریت اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آمدن کا نصف حصہ خرچ کردیتی ہے۔

ہم سب کو پتا تھا کہ اگر مطلوبہ سائز پر مباحثہ کیا جاتا تب بھی اس ایڈجسٹمنٹ پر عمل ہونا ہی تھا۔ جولائی میں آئی ایم ایف پروگرام سے جڑی دستاویزات جاری ہونے کے بعد ہم نے ایڈجسٹمنٹ پر جامع انداز میں عمل شروع ہوتے دیکھا تب تک ہم پہلے ہی اپنے مستقبل کے سفر کا اچھا خاصا فاصلہ طے کرچکے تھے۔

2018ء کے ابتدائی حصے میں شروع ہونے والی مالی سختی کے سلسلے کی وجہ سے شرح سود میں پہلے ہی 100 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوچکا تھا اور شرح مبادلہ میں پہلے سے ہی تقریباً 30 فیصد تک کمی آچکی تھی۔ اس کے بعد ریوینیو اکھٹا کرنے کی ایک ایسی جارحانہ مہم کا آغاز ہوا جو اس سے پہلے کم از کم 2 دہائیوں میں تو نہیں دیکھی گئی تھی۔

مالی سال کی پہلی سہہ ماہی اختتام کو پہنچ چکی اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہم اس وقت سیاہ رات کے سیاہ ترین پہر سے گزر رہے ہیں۔ ریونیو میں 15 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، تاہم یہ اضافہ اس لیے متاثرکن قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ مہنگائی کی شرح پہلے سے ہی 11 فیصد کو چُھور رہی ہے، لہٰذا زیادہ تر اضافے کا تعلق اسی مہنگائی سے جوڑا جاسکتا ہے۔

اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ صنعت تباہی کے دہانے پر ہے جو قرضے کی بھاری اقساط، شرح مبادلہ میں کمی کے باعث لاگت میں ہونے والے اضافے، آمدن میں کمی اور بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کرتے عوام کی جانب سے اخراجات کم کرنے کے سبب یہ منڈی مزید گرداب میں پھنس چکی ہے۔

دوسری طرف، ریونیو کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات نے دکانداروں، مال فروش کرنے والوں اور ڈسٹی بیوٹر کے جال کو کافی زیادہ متاثر کیا ہے، کہیں کہیں تو نیٹ ورک تقریباً ٹھپ ہی ہوچکا ہے۔

ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کہتے ہیں کہ ٹیکس جال کو وسیع کرنا ضروری ہے اور چونکہ ملکی جی ڈی پی میں سروسز کے شعبے کا حصہ نصف سے بھی زیادہ ہے مگر ریاست کی جانب سے اکھٹا کیے جانے والے ریونیو میں اس کا حصہ ایک چوتھائی سے بھی کم ہے چنانچہ اس شعبے کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو ٹیکس جال میں لانا ہی ہوگا اور چونکہ سروسز کا شعبہ مرکزی طور پر چھوٹے سے متوسط سائز کی انٹرپرائزز پر مشتمل ہے اس لیے ان تک پہنچنے کے لیے آپ کو نئے طریقے ڈھونڈنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

لہٰذا اب ایف بی آر نے تمام صنعت کاروں کو پابند بنایا ہے کہ وہ جن دکانداروں اور ڈسٹری بیوٹرز سے لین دین کرتے ہیں ان سے ان کی قومی شناختی کارڈ کی نقل وصول کی جائے تاکہ ایف بی آر یہ پتا لگا سکے کہ یہ کتنی بڑی رقوم کے ساتھ لین دین کر رہے ہیں اور ان لوگوں کی نشاندہی بھی کی جاسکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یوٹیلٹی کمپنیوں سے ایسے تمام اداروں کی فہرستیں بھی اکھٹا کی ہیں جنہیں کاروباری یا صنعتی مقصد کے لیے گیس یا بجلی کے کنیکشن کی اجازت دی گئی ہے مگر ان کی جانب سے اب تک کوئی ریٹرن فائل نہیں کیا گیا۔

ان تمام اداروں کو بڑی تعداد میں نوٹس بھیجے جا رہے ہیں۔ چھوٹے دکانداروں کے لیے انہوں نے ٹیکس کا فکسڈ یا مقررہ نظام متعارف کروایا ہے، جس کے تحت دکاندار صرف دکان کے رقبے کے حساب سے طے کی گئی مقررہ رقم ادا کرسکتے ہیں اور اسی کو اس سال کے ٹیکس کی مجموعی سیٹلمنٹ قرار دے سکتے ہیں۔

اب تک تو سب کچھ ٹھیک دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں پر ایک مسئلہ نظر آتا ہے۔ سروسز کے شعبے کا ردِعمل زیادہ متاثرکن نہیں اور رقم کی منتقلی کو دستاویزی شکل دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنا قومی شناختی کارڈ دینے والے کاروباری افراد یا پھر جن لوگوں نے فائلرز بننے کا ارادہ کیا ہے ان کی تعداد اب تک بہت ہی کم رہی ہے۔

اس حوالے سے اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہیں البتہ فیکٹری مالکان سے بات کرنے کے بعد یہ معلوم چلا کہ جب وہ دکانداروں اور ڈسٹری بیوٹرز کو قومی شناختی کارڈ کی شرط کو پورا کرنے پر زور دیتے ہیں تو ان کی جانب سے بہت زیادہ ہچکچاہٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔

ان تمام تر معاملات سے بے چینی کو ہوا مل رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی لاگت اور کم ہوتی فروخت کا سامنا کررہے صنعتی شعبے نے پیداوار میں زبردست کٹوتی کا عمل شروع کردیا ہے اور دیہاڑی کی بنیاد پر کام کرنے والے جن افراد سے یہ شعبہ خدمات حاصل کرتا تھا ان کی تعداد میں بھی زبردست کمی آچکی ہے۔

صنعتی رہنما اب اپنے وفود کے ساتھ آرمی چیف کے پاس پہنچ رہے ہیں اور کھلے عام یہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس حکومت میں کس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکمراں جماعت کے اراکینِ پارلیمنٹ بھی ایوان کے فلور پر کھڑے ہوکر مہنگائی کو باآوازِ بلند تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

خود وزیرِاعظم بھی اس گرما گرمی سے پریشان ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ممبران پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی پوری توانائی اور توجہ عوام کو کچھ نہ کچھ ’ریلیف‘ دینے پر مرکوز کریں، چاہے پھر احساس پروگرام یا نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی کے منصوبے کے تحت کام میں تیزی لائی جائے (حالانکہ بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کی وجہ سے اس پراجیکٹ کے لیے اب تک پیسے بھی مختص نہیں کیے جاسکے ہیں) یا پھر تندور والوں کو ایڈجسٹمنٹ کے مقصد سے گیس نرخ میں کیے جانے والے اضافے سے چُھوٹ دی جائے تاکہ خوراک کی بڑھتی قیمتوں کو کسی بھی طرح روکا جاسکے۔

پاکستان کے دورے پر آئے آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی ملاقات کے دوران ڈویژن ہیڈ نے مجھے بتایا کہ ‘وزیرِاعظم اس پروگرام کی جانب ذمہ داری کا بھرپور احساس اور غربت میں خاتمے کے لیے بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔‘ اس بات پر زور دیے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی وزیرِاعظم سے ہونے والی ملاقات کے دوران زیادہ سے زیادہ اس بات کو زیرِ غور لایا گیا کہ ملک میں جاری ایڈجسٹمنٹ کے عوام پر پڑنے والے اثرات کو کس طرح کم سے کم کیا جائے۔

سو یہی ہے ایڈجسٹمنٹ کا نقطہ عروج۔ اسٹیٹ بینک احتیاط سے کام لیتے ہوئے ہر فورم پر لوگوں کو خبردار کر رہی ہے کہ عین ممکن ہے کہ اگلے کم از کم 6 ماہ تک حالات جوں کے توں رہیں۔ بڑھتی ہوئی بے چینی حکومت کی ایڈجسٹمنٹ کے عزم کا اور بھی زیادہ امتحان لے گی۔

ممکن ہے کہ عوام کی تکلیف میں کمی لانے کی خاطر کوئی نہ کوئی راہ تلاش کرنے کی ناکام کوششیں میں مصروف وزیرِاعظم مزید پریشان حال دکھائی دیں۔ اس معاملے میں نہ تقاریر اور نہ ہی ٹی وی پر خودنمائی مددگار ثابت ہوگی۔ جذباتی التجاؤں کو ذرا بھی خاطر میں نہ لانے والی اقتصادی قوتوں کے زیرِ کنٹرول عوام کو عنقریب اس کھیل کے ٹھوس نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ خان کے طرزِ قیادت کو تبدیل ہونا ہی پڑے گا۔


یہ مضمون 3 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں