سننے والوں میں سے کچھ کے لیے یہ باتیں صرف باتیں تھیں جو وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال رہے تھے کہ خدا نے 2 کان بنائے ہی اس لیے ہیں۔ مگر کچھ کے لیے یہ باتیں ان کے دل و دماغ میں خوف کی زنجیریں توڑنے کا سبب بن رہی تھیں۔ وہ ان لفظوں کی لڑی کو کان سے سن کر دماغ میں بُن رہے تھے کہ کہیں یہ دوسرے کان سے نکل ہی نہ جائیں۔ رب نے ان 2 کانوں کے درمیان دماغ اسی لیے رکھا ہے کہ جو بات کام کی لگے اسے دوسرے کان سے پھسلنے سے پہلے مغز میں باندھ لیا جائے۔
‘آپ کو اگر میری باتیں صرف باتیں لگ رہی ہیں اور یہاں پر آئے ماہرین کی ’سکسیس اسٹوری‘ جادو نظر آتی ہے تو جان لیں کہ Those who don’t believe in magic will never find it۔ یہ لوگ جو یہاں سکسیس اسٹوریز سنانے آتے ہیں ان میں اور آپ میں صرف ایک فرق ہے، اور وہ یہ کہ ان لوگوں نے انیشییٹو لیا تھا۔ ان میں سے کئی بہتیری دفعہ ناکام بھی ہوئے مگر یہ جانتے تھے کہ ناکام ہوجانا اور ہار جانا، شروع نہ کرنے سے بہتر ہے۔ ہار جانا بزدلوں کی طرح ڈر کے مارے کسی اور کے لیے زندگی جیتے رہنے سے کہیں بہتر ہے۔‘
کانفرنس کا وقت ختم ہوچکا تھا پر سب ہمہ تن گوش تھے۔ وہ اپنی کتھا سنانے لگے کہ ’میں ایک دفعہ پاکستان کی ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی کے جی ایم مارکیٹنگ کے پاس اپنے ایک پراجیکٹ کے لیے اسپانسر شپ لینے گیا۔ اس نے میرا آئیڈیا سن کر میرا ہاتھ چوم لیا۔ اس کے لفظوں نے مجھے ایسا حوصلہ اور امنگ دی کہ میں ‘کِک اسٹارٹ’ ہوگیا۔
اس نے میرا ہاتھ چوما، کاندھے پر تھپکی دی اور کہنے لگا کہ میرا کیرئیر 27 سالوں پر محیط ہے اور اس نوکری کے پہلے 2 سالوں کے بعد سے میں اپنے ایک آئیڈیا پر کام کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ اس وقت میں جوان اور توانائی سے بھرپور تھا، میرے پاس اسکل سیٹ بھی تھا، تجربہ بھی، مارکیٹ اینٹیلی جنس بھی، مگر بس مجھ میں یہ لگی بندھی تنخواہ چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں نے 25 سال یہ سوچتے گزار دیے مگر کچھ شروع نہ کرسکا اور اب اس عمر میں میرا دل، میری ہمت سب مرچکا ہے۔ میں نے آج تمہارا آئیڈیا سنا اور یہ دیکھا کہ کیسے تم نے وسائل کے فقدان کے باوجود ایک انیشییٹو لیا ہے۔ اس کا صلہ یہی بنتا ہے کہ میں تمہارا ہاتھ چوموں اور جو مدد کرسکتا ہوں وہ کروں اور بالفرض اگر یہ آئیڈیا ناکام بھی ہوجائے، پٹ بھی جائے تب بھی کچھ غم نہیں کہ تم ایک باہمت، باحوصلہ انسان ہو، تم ایک دن کامیاب ہو ہی جاؤ گے۔‘