تاہم، جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا عملی مظاہرہ کرکے دکھا دیا ہے کہ یہ چیک اینڈ بیلنس صرف اسی وقت کارگر ثابت ہوتے ہیں جب صدر ان کا احترام کرتا ہے۔ کئی ملکوں کے آئین میں عام طور پر کوئی بھی صدر صرف 2 مدتوں تک صدارت کے عہدے پر فائر رہ سکتے ہیں۔ تاہم آمرانہ رجحانات کے حامل طاقتور صدور نے یا تو ترامیم کے ذریعے حد ختم کروادی جس کی مدد سے وہ ہمیشہ کے لیے صدر بن کر بیٹھ گئے یا پھر حکومتی مدت میں توسیع کی خاطر اپنے وزرائے اعظم سے عہدہ بدل لیتے ہیں جبکہ اقتدار کی حقیقی لغام اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہوتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ برداشت کے بغیر آئین اور جمہوریت کی تمام تر باگوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر بھارت کو ایک حقیقی سیکولر ریاست بنانے کے لیے عزم ہی نہیں ہوگا تو پھر چاہے آئین میں کتنی ہی شقیں کیوں نہ متعارف کروالی جائیں ان سے یہ ملک سیکولر نہیں بن سکے گا۔ اسی طرح جب پاکستانی ریاست مشتعل ہجوم کے آگے جھک جائے تو پھر پاکستانی اقلیتوں کو چاہے کتنا ہی آئینی تحفظ حاصل کیوں نہ ہو اس کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔
جب ہندوستان پر بابر کی حکمرانی تھی تب جمہوری نظام کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ مگر بطورِ منتظم، وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس بڑے اور تکثیری ملک میں سماجی ہم آہنگی صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب ہر ایک برادری کو یکساں حیثیت میں عدل و انصاف فراہم ہوگا۔ ایک چھوٹی مسلم اکثریت اپنے سے ہندوؤں کی کئی گُنا بڑی آبادی سے لڑائی مول لے کر حکمرانی نہیں کرسکتی تھی۔
پاکستان اور بھارت بلکہ دنیا کے کئی ملکوں میں ’دوسرے‘ پر شک ہی ظلمت اور خوف کی راہ ہموار کرتا ہے اور ہم سے ہماری انسانیت چھین لیتا ہے۔
یہ مضمون 5 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔