ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یکساں نصاب، علمی کتب اور امتحانی عمل، کا نفاذ اگر ممکن بھی ہوتا تو بھی اس سے اسکولوں تک رسائی اور معیار جیسے اہم مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یکساں نصاب کس طرح 2 کروڑ 22 لاکھ کو اسکول میں داخل کروانے میں مددگار ثابت ہوگا؟
بچوں کے اسکول میں داخلے کی شرح بڑھانے کے لیے زیادہ اسکولوں، اساتذہ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور اسکولوں میں داخلے کا رجحان بڑھانے کی خاطر خصوصی مراعات دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ نصاب کی یکسانیت سے ان میں سے کسی ایک معاملے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ معیارِ تعلیم کا بڑی حد تک تعلق کتب، اساتذہ کے فن تدریس اور نصابی علم، ٹیچر میں ترغیب پیدا کرنے، اور تعلیم کی صورتحال کا تعین کرنے کے معیاری طریقے درکار ہوتے ہیں لیکن ان شعبوں میں سدھار لانے کے لیے یکسانیت کون سا کردار ادا کرسکتی ہے؟
حکومت یکسانیت کو برابری (equity) سے جڑے مسائل ختم کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ تاہم میں یہاں بھی یہی کہوں گا کہ یکسانیت کے ذریعے برابری قائم نہیں کی جاسکتی۔ بچوں کے حالات، ان کی ضروریات، صلاحیتوں اور خواہشات کی گونا گونیت پر مبنی فریم ورک کی حدود میں رہتے ہوئے برابری سے جڑے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے یکساں نصاب سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا اُلٹا برابری سے جڑے مسائل بد سے بدتر ہوں گے۔
برابری، اسکولوں تک رسائی اور معیار سے جڑے مسائل کے حل کے لیے شعبہ تعلیم کو متعدد اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات درکار ہیں۔ تاہم یکساں نصاب، کتب اور/یا امتحانی نظام کے نفاذ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس عمل سے کوئی ایک بھی ایسا مسئلہ حل نہیں ہوگا جسے ہم حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر یکساں نصاب سے متعلق اس اصلاحاتی عمل کا نفاذ ممکن ہو بھی جاتا تو اس کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے پڑیں گے جبکہ اس کے نتیجے میں تعلیم سے جڑے دیگر شعبوں کو ٹھیس بھی پہنچے گی۔
یہ مضمون 4 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔